منھ میں زبان ہے سو بہانہ نہیں ملا
کہنے کو پر کوئی بھی فسانہ نہیں ملا
پہلے پہل لگا تھا ہمیں مل گیا ہے وہ
مدت کے بعد ہم نے یہ جانا نہیں ملا
انجان بن کے رہتے ہیں وہ لوگ شہر میں
گھر تو ملا ہے جن کو گھرانہ نہیں ملا
دنیا میں ہم اخیر میں آئے ہیں اس لئے
ہم کو کسی نبی کا زمانہ نہیں ملا
جو مل گیا ہے ہم کو وہ ایماں کا نور ہے
دنیا کو اس سے اچھا خزانہ نہیں ملا
ہجرت جو کر گئے ہیں انہیں کچھ بھی مل گیا
اقبال کا وہ ہندی ترانہ نہیں ملا
میخانے میں ہی آگئے واعظ بھی شیخ بھی
پینے کا جب کہیں بھی ٹھکانا نہیں ملا

43