Circle Image

Rasheed Hasrat

@RasheedHasrat

ہم یہاں کے ہو لیئے پر کام تو کچھ اور تھا
پا لیا سکھ بھی، مگر الزام تو کچھ اور تھا
دیکھ تیری ضد کے آگے ہم تو جھکنے سے رہے
کیا ہؤا ہے صبح، اے دل! شام تو کچھ اور تھا
اس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا قاصد تجھے
آتے آتے کیا ہؤا، پیغام تو کچھ اور تھا

0
12
دھیان آتا ہے کہ وہ دل کے قریب آتے ہیں
واہمے بھی تو مجھے کتنے عجیب آتے ہیں
کاش اک روز ہمیں ساتھ بھی دیکھا جاتا
ہم چلے جاتے ہیں پھر اپنے نصیب آتے ہیں
ہم غریبوں کے مقدر میں نہیں درد علاج
اور میروں کے اشاروں پہ طبیب آتے ہیں

17
ہم بنے بِن تِرے مہمان، پلٹ آئے ہیں
ورنہ کھو بیٹھتے پہچان پلٹ آئے ہیں
ایک اکائی نے ہمیں دل میں سمونا چاہا
ہم ہمیشہ کے ہی نادان، پلٹ آئے ہیں
کیا کہوں تم سے مدینے کا سفر کیسا ہے
بارہا ملکوں کے سلطان پلٹ آئے ہیں

0
16
در پہ آئے تھے ترے، جان مگر لوٹ گئے
کوئی ہونا ہی تھا نقصان، مگر لوٹ گئے
ہم جو آئے تھے تری ایک جھلک پانے کو
تو بھلے کرتا بھی احسان، مگر لوٹ گئے
ہم جو چوری کو گئے، گھر وہ کسی شاہ کا تھا
لُوٹ لینا بھی تھا آسان، مگر لوٹ گئے

0
8
کُھل گیا مجھ پہ وہ سب اپنے مفاہیم کے ساتھ
ملتا رہتا جو سدا پیار سے، تعظیم کے ساتھ
اور تو کچھ بھی محبت سے مرا کیا ناطہ
میری وابستگی رہتی ہے فقط میم کے ساتھ
ہم فقیروں کی طلب درس بِنا کچھ بھی نہیں
اُس کا آغاز ہے زر، خاتمہ ہے سِیم کے ساتھ

0
15
کیا ہوگی مرے خواب کی تعبیر بتاؤ
مشکیں ہے مرے پاؤں میں زنجیر، بتاؤ
یہ ملک مرا روز تنزّل کو رواں ہے
کیا اس کا علاج، اس کی ہے تعمیر، بتاؤ
کی جس کے لیے چوری وہی چور بتائے
کیا ہوگی بھلا ایسوں کی تعزیر بتاؤ

11
بوڑھا تھا مگر عین جوانی میں کھڑا تھا
مہکار میں تھا رات کی رانی میں کھڑا تھا
تھے جتنے بھی وہ بیٹھ گئے ایک مگر وہ
کردار تھا جو ساری کہانی میں کھڑا تھا
یہ بات الگ شاہ زباں پر نہیں ٹھہرا
شب بھر کے لیے شخص وہ پانی میں کھڑا تھا

10
پیار سے ہاتھ لیا کھینچ تو تضحیک ہوئی
عشق میں رابطہ رہنے کی تو تصدیق ہوئی
تو اگر مجھ سے ہے وابستہ تو اظہار بھی کر
منہ سے مانگی ہوئی، چاہت نہ ہوئی، بھیک ہوئی
جب تلک نسخ میں تحریر تھی تہذیب رہی
اِس کی شاگرد بنی، اُس کی اتالیق ہوئی

0
14
اب کسی طور، کہیں بھی نہ سمانا ہے مجھے
دل یہ کہتا ہے، ترا دل ہی ٹِھکانا ہے مجھے
جن دیاروں میں رہوں، جیسی فضاؤں میں اُڑوں
پھر اسی پیڑ، اسی شاخ پہ آنا ہے مجھے
کون کہتا ہے ترے من کی نہیں ہے قیمت
ایک سوغات ہے، انمول خزانہ ہے مجھے

13
ہمارے قد کے برابر کا شعر گو کوئی؟
اگر ہے دعویٰ، تو اس کا جواز دو کوئی
حسد سے گرچہ بلاتے نہیں ہیں محفل میں
بُلائیں اُس کو کرے چاپلُوسی جو کوئی
ادب کا ٹھیکہ ہے، مخصوص لوگ سرکردہ
زبان کھولو کہ انصاف بھی تو ہو کوئی

0
15
خزاں کی رت کو بھی ہنس کر بہار ہم نے کیا
نہ آنے والے! تِرا انتظار ہم نے کیا
جنوں میں کوئی بھی شئے پاس کب رہی اپنے
رہا گریباں، سو وہ تار تار ہم نے کیا
کیا تھا جس نے بھروسہ، نتیجہ بھی دیکھے
تمہارے وعدے پہ کب اعتبار ہم نے کِیا؟

0
13
ارمان کئی سینے میں دفنائے ہوئے ہم
بستی میں تِری لوٹ کے پھر آئے ہوئے ہم
دامن میں کوئی تم نے فسُوں باندھ رکھا ہے
مہکے ہیں، کئی دن کے تھے مرجھائے ہوئے ہم
ہر بات بُھلا دی ہے مگر ایک تِری یاد
پھرتے ہیں اسے سینے سے چمٹائے ہوئے ہم

0
7
میں جہاں جاؤں تعاقب میں ہے رسوائی مری
مجھ کو محفل میں کیے رکھتی ہے تنہائی مری
مشورہ اپنے معالج کا رکھا بالائے طاق
آج گھائل کر گئی خود سے مسیحائی مری
ڈھونڈتا ہوں نقص خالق کی ہر اک تخلیق میں
باعثِ شرمندگی ہے پھر تو زیبائی مری

0
16
وہ رویّہ کبھی تبدیل نہیں کرتے کیا؟
اپنی آنکھوں کو ابھی جھیل نہیں کرتے کیا؟
یہ الگ بات کہ خود اپنا گرایا ہے وقار
واسطے بھیلنی کے بِھیل نہیں کرتے، کیا؟
زُعم تھا، جس نے رکھا تجھ کو اناؤں کا شکار
ہم ترے حکم کی تعمیل نہیں کرتے کیا؟

0
43
اگرچہ دُشوار تھا مگر زیر کر لِیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لِیا تھا
وُہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ھے
طلب میں جِس کی زمِیں پہ بوسِیدہ گھر لِیا تھا
گُلوں کی چاہت میں ایک دِن کیا بِچھایا ھوگا
کہ ھم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لِیا تھا

0
19
غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے
آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے
ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر
جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے
اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں
مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے

0
26
اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا
پاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گا
میں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگی
اب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گا
کل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نے
سب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گا

0
29
وُه شور ہے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں
تلاش جِس کی ہے وه کیوں دِکھائی دیتا نہیں
سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں
یہ میرا ظرف کہ پِھر بھی دُہائی دیتا نہیں
نجانے کِتنی مُشقّت سے پالتی ہے یتِیم
ہے دُکھ کی بات کہ اِمداد بھائی دیتا نہیں

0
33
شِکستہ دِل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر
صنم مِل کر ہمیں پِھر آج تنہا کر گیا آخر
غریبِ شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی
وفا کرنے پہ بھی اِلزام اُس کے سر گیا آخر
بڑھا کر ہاتھ اُلفت کا سدا کی بے کلی دے دی
تُمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر

0
22
دیکھا ہے جو اِک میں نے وہی خواب بہُت ہے
ورنہ تو وفا دوستو! کمیاب بہُت ہے
یہ دِل کی زمِیں بنجر و وِیران پڑی تھی
تھوڑی سی ہُوئی تُُجھ سے جو سیراب بہُت ہے
کل لب پہ تِرے شہد بھری بات دھری تھی
اور آج کے لہجے میں تو تیزاب بہُت ہے

0
29
پِھر اُس کے بعد تو تنہائِیوں کے بِیچ میں ہیں
کہ غم کی ٹُوٹتی انگڑائِیوں کے بِیچ میں ہیں
غرور ایسا بھی کیا تُجھ کو شادمانی کا
کِسی کی چِیخیں جو شہنائِیوں کے بِیچ میں ہیں
ہمیں تو خوف سا لاحق ھے ٹُوٹ جانے کا
تعلُّقات جو گہرائِیوں کے بِیچ میں ہیں

0
30
خزاں چُن لی بہار آئے نہ آئے؟
سِتم گر اعتبار آئے نہ آئے؟
نتِیجہ ہے یہی گُل پاشِیوں کا
کہ پتھر بے شُمار آئے نہ آئے؟
جو ہم کو روکتے تھے اُس گلی سے
وہ سب کُچھ اپنا ہار آئے نہ آئے؟

0
34
سُورج پہ لا کے بوریا اپنا بِچھا دیا
پِھر یُوں کِیا کہ چاند کو تکیہ بنا دیا
زُہرا تو یُوں بھی ساتھ میں رہتا تھا ہر گھڑی
پِھر مُشتری لِحاف کی صُورت میں لا دیا
ہم بھی وہاں تھے سیر کو، ثاقِب شِہاب بھی
اُس کو ہٹا کے کہکشاں نے راستہ دیا

0
22
فقیر جان نہ اِن کو، وزیر بیٹھے ہیں
یہ راہداری پہ جو لِیر لِیر بیٹھے ہیں
کُھلا یہ بھید کہ اب بُھوک مار ڈالے گی
کہ اِقتدار میں مُردہ ضمِیر بیٹھے ہیں
وہ کر رہا تھا کِسی کھیل میں اداکاری
ہمی تھے سادہ کہ دِل اپنا چِیر بیٹھے ہیں

0
33
ابھی مَیں وقت پہ جاگا ضمِیر زِندہ ہے
پڑا ہے قید میں لیکِن اسِیر زِندہ ہے
تُم اپنے بھاگ ذرا آزما کے دیکھ تو لو
مُرادیں پوری کرے گا یہ پِیر زِندہ ہے
فقِیری حال کو پہنچے ہو جِس کے کارن تُم
منا لو جشن تُمہاری وہ ہِیرؔ زِندہ ہے

0
18
ہماری ضِد ہے، انا بھی ہے، انتقام بھی ہے
سُہانی صُبح، مہکتی سی ایک شام بھی ہے
وگرنہ بزم سے کب کا اُٹھا دیئے جاتے
تبھی تو بیٹھے ہو شامل تُمہارا نام بھی ہے
بہارِ گلشنِ خُوش رنگ اب عُرُوج پہ ہے
خُوشی ہے ساتھ مِرے میرا خُوش خرام بھی ہے

0
18
بہار کو ہم خیال کر لو ہواؤں کو ہمنشِیں بنا لو
قیام کرنا اگر تُمہیں ہے تو آشیاں سا کہِیں بنا لو
جہاں پہ کِھلتی ہوں روز کلیاں، جہاں پہ خُوشبُو لُٹاتے گُل ہوں
جہاں کی آب و ہوا تُمہیں راس ہو ٹِھکانہ وہِیں بنا لو
ہمارے سر کردہ رہنُماؤں نے بُھوک بانٹی، فساد ڈالا
زمِیں کو اُوپر اُچھال کر، اب فلک کو اپنی زمِیں بنا لو

0
19
گِلہ کرنے پہ بھی مَیں اِس گلی کُوچے میں آیا تو؟
غلط انداز نظروں سے اگر وہ مُسکرایا تو؟
بچاتا ہی رہا مَیں لاکھ دامن دُکھ کے کانٹوں سے
خُوشی کو اب ہڑپ کرنے لگی ہے غم کی چھایا تو
مبادہ کھو ہی بیٹھوں سوچ کر یہ باز رہتا ہوں
حقِیقت کُھل بھی سکتی ہے اُسے گر آز مایا تو

0
31
بے سبب تِیرگی میں اُتارے گئے، ہم جو مارے گئے
ایک پُر جوش ندیا کے دھارے گئے، ہم جو مارے گئے
اور کُچھ بھی نہ تھا، اُن کا تھے حوصلہ، ظُلم کے دور میں
بے سہاروں کے یہ بھی سہارے گئے، ہم جو مارے گئے
لب کُشائی پہ لاگُو تھی گردن زنی، سربکف ہر گلی ہر طرف ہم ہُوئے
سُولِیوں پہ یہ سرکش اُتارے گئے، ہم جو مارے گئے

0
20
وہ جان بُوجھ کر اگر انجان ہے تو ہے
پِھر بھی وہ میرا عِشق ہے پہچان ہے تو ہے
تُو اپنی سوچ، مُڑ کے نہِیں دیکھ اِس طرف
گھر میرا تیرے بعد جو وِیران ہے تو ہے
جب چل پڑے تو راہ کی دُشواریوں کا کیا؟
جنگل ہے بِیچ، راستہ سُنسان ہے تو ہے

0
14
وہ جان بُوجھ کر اگر انجان ہے تو ہے
پِھر بھی وہ میرا عِشق ہے پہچان ہے تو ہے
تُو اپنی سوچ، مُڑ کے نہِیں دیکھ اِس طرف
گھر میرا تیرے بعد جو وِیران ہے تو ہے
جب چل پڑے تو راہ کی دُشواریوں کا کیا؟
جنگل ہے بِیچ، راستہ سُنسان ہے تو ہے

0
17
پرکھنے کا یہاں پر اہلیت، معیار دولت ہے
یہاں چرسی، موالی اور سمگلر کی ہی عزّت ہے
فقط عُہدہ ہے فن کو ماپنے کا ایک پیمانہ
جو اوروں سے لِکھاتا ہے، فراہم اُس کو شُہرت ہے
بناوٹ کا زمانہ ہے، دِکھاوا کارفرما ہے
بُزرگوں سے کریں صرفِ نظر، لوگوں کی عادت ہے

17
کہِیں میرا سراپا کھو گیا ہے
نہِیں لوٹا وہاں کو جو گیا ہے
پِنگھوڑے میں جِسے دیکھا تھا تُو نے
تِرے قد کے برابر ہو گیا ہے
مَیں جِس کے واسطے چُنتا تھا کلیاں
مِری راہوں میں کانٹے بو گیا ہے

0
27
ملتی ہے خوشی، پاتے ہیں غم حسبِ تمنّا
احباب جو کرتے ہیں ستم حسبِ تمنّا
مشکل سے تھما آنکھوں سے بوندوں کا تسلسل
رکھ لے گی دھنک میرا بھرم حسبِ تمنّا
جانا بھی نہیں چاہتا، جانا بھی مگر ہے
تھامے گا کوئی بڑھ کے قدم حسبِ تمنّا

0
19
تھے کہاں کے، کہاں پر اُتارے گئے
کھینچ کر ہم زمِیں پر جو مارے گئے
جو اُتارے گئے تھے ہمارے لِیئے
سب کے سب چاند، سُورج، سِتارے گئے
ناؤ احساس کی ڈگمگا سی گئی
اور ہاتھوں سے ندیا کے دھارے گئے

0
46
قائدِ اعظم محمد علی کو مخاطب کر کے۔
کِس نے کہا کہ شاد ہُوئے ہیں۔ علی جناح
ہر دِن نئے فساد ہُوئے ہیں، علی جناح
کھیلا ہے کھیل ایسا سیاست گروں نے آج
کیا کیا سبق نہ یاد ہُوئے ہیں، علی جناح
فِطرت کو اپنی قوم کی کیا جانتے نہ تھے؟

0
67
کُچھ بتائیں دِل کا شِیشہ چُور کیوں رکھا گیا
پُوچھنا تھا یہ، ہمیں رنجُور کیوں رکھا گیا
جانتا تو تھا یہاں پر غُلغلہ اندھوں کا ہے
کور چشموں میں ارے منصُورؔ کیوں رکھا گیا
جب مُقدّر کے سِتارے آسمانوں میں رکھے
پِھر زمِیں سے آسماں کو دُور کیوں رکھا گیا

0
18
وُہ اعتبار مُجھے دے گا یا نہِیں دے گا؟؟
چلو دیا بھی اگر آپ سا نہِیں دے گا
وہ لاکھ پیار لُٹائے، تُمہارے ہوتے مگر
خُمار جیسا محبّت کا تھا نہِیں دے گا
کِسی نے بِیچ سفر میں ہی راستہ بدلا
مَیں خُوش گُمان کہ مُجھ کو دغا نہِیں دے گا

0
73
مُجھے قرِیب سے جو دیکھ اِنہماک کے ساتھ
ہُؤا ہے مُجھ پہ مُسلّط تُو پُوری دھاک کے ساتھ
مَیں تُجھ کو دِل کے نگر کا بناؤں گا سرپنچ
ہر اِک قدم پہ مِلوں گا بڑے تپاک کے ساتھ
پڑے جو وقت کبھی مُجھ کو آزما کے تو دیکھ
لُٹاؤں جان بھی مَیں تُجھ پہ اِشتیاق کے ساتھ

43
تُمہارے نام پہ دِل دے دیا تھا، جاں بھی دی
بھٹکتے پِھرتے تھے صحراؤں میں اذاں بھی دی
متاعِ زِیست تلک اُس کے نام کر ڈالی
دِیا جو نوحہ اُسے ساتھ نوحہ خواں بھی دی
ہمارے پاس تو باقی نہ رہ سکِیں یادیں
چمن دیا جو اُسے بُوئے گُلستاں بھی دی

26
کِسی نے ہم سے کہا تھا گُلاب چھاپیں گے
کریں گے نِیند کی تشہِیر خواب چھاپیں گے
اُٹھا کے لائے ہیں افلاس اب کریں گے یُوں
مہکتے زخموں کی دہکی کِتاب چھاپیں گے
حیات کو جو میسّر تھے پیڑ اُجاڑ ہُوئے
اب اپنے دشت، سفر اور سراب چھاپیں گے

42
کھینچی زبان اُس کی بہُت بولتا تھا وہ
شاہوں کے راز جو تھے سبھی کھولتا تھا وہ
اُس کو تھی راست گوئی کی عادت پڑی ہُوئی
سب کی بیان بازیوں کو تولتا تھا وہ
ہاری کِسان اُس کو بہُت ہی عزِیز تھے
مارا گیا کہ کانوں میں رس گھولتا تھا وہ

0
46
نہ بھائے اِن کو بُزُرگوں سے مشورہ لینا
دُعا ہی دیں گے اِنہیں، ہم کو اِن سے کیا لینا
کِسی نے طنز کے تِیروں سے اِبتدا کی ہے
ابھی تو ہم پہ ہے لازِم گلے لگا لینا
وفا کے پُھولوں کی تُم نے جو پیش کی سوغات
رُکو جفا سے ذرا اِس کا تُم صِلہ لینا

30
جو لفظ چِھین کے اِظہارکھینچ لیتی ہے
ہمیں تو وقت کی رفتار کھینچ لیتی ہے
ہر ایک بار کشِش سے میں بچ کے رہتا ہُوں
ہر ایک بار وہ گُفتار کھینچ لیتی ہے
ہمارے ہونٹ کبھی سچ کا بوجھ اُٹھاتے نہِیں
ہوائے جُھوٹ جو پتوار کھینچ لیتی ہے

0
27
عجب گُماں دلِ خُوش فہم کو لگا تو ہے
رہے گا کیسے مِرے بِن جُدا ہُؤا تو ہے
خیال کو کبھی تجسِیم کر کے چُومتا ہُوں
نہِیں ہیں آپ مگر عکس آپ کا تو ہے
امیرِ شہر تو گتّے کا پہلواں نِکلا
سلام فوج کو جِس نے قدم لِیا تو ہے

0
49
نہیں چھیڑو تُمہارے کام کا یہ دِل نہِیں۔ رکھ دو
مذاق ایسا محبت میں رکھا شامِل نہِیں۔ رکھ دو
اگاہی جا رہی بیکار چِیزیں مہنگے داموں پر
ہمارا دِل ہے یہ بجلی کا کوئی بِل نہِیں۔ رکھ دو
یہ اِک مُفلِس کا دِل ہے کوڑیوں کے بھاؤ بِکتا ہے
بہُت اچّھا۔ تُمہارے پیار کے قابِل نہِیں؟ رکھ دو

0
36
یہ کیسی حُکمرانی ہے کہ کافِر کو بھی شرما دے
بدل دیں روشنی کو یہ اندھیروں میں سیہ زادے
ہماری مانگ اب اس کے سِوا کُچھ بھی نہِیں لوگو
کوئی پِھر سے ہمارا مُلک پاکستان ہی لا دے
ہمیں لُوٹا گیا مُجرم بھی ہم لوگوں کو ٹھہرایا
وہی ہم بھولے بھالے ہیں وہی سادہ کے ہیں سا دے

0
53
رہا وہ نَیند میں، شامِل جو رتجگوں میں ہے
خُمار کیسا یہ اب کے خزاں رُتوں میں ہے
میں جان بُوجھ کے انجان بن کے رہتا ہُوں
جو وار پُشت سے کرتا ہے، دوستوں میں ہے
فراز لوگ تُمہیں بُھول ہی نہِیں پائے
کہ اِحترام ابھی آپ کا دِلوں میں ہے

0
33
چاند پر ہم نے قدم رکھا ہے دیکھا خواب میں
آنکھ جب کھولی تو پایا خُود کو اک گرداب میں
حُکمرانوں کی غلط انداز طرزِ فِکر سے
دور وہ آیا سکت باقی نہِیں اعصاب میں
تُم نے گاؤں میرے سمجھانے پہ بھی چھوڑا نہِیں
کوئی مینڈک جِس طرح سڑتا رہے تالاب میں

37
مکاں سکُوت میں ہے، کوئی داس ہے کہ نہِیں؟
گئے دِنوں کی رچی اِس میں باس ہے کہ نہِیں؟
سِتارے آنکھوں کے اِک ایک کر کے بیچ دِیئے
دِیا بُجھا سا کوئی اپنے پاس ہے کہ نہِیں؟
کِسان بِیج تو بوتا ہے کاٹتا ہے بُھوک
ٹٹولو جِسم پہ کُچھ اِس کے ماس ہے کہ نہِیں؟

0
44
دور تھا ابنِ علی کُنبے کو لائے کربلا
گُونجتی ہے اب بھی کانوں میں صدائے کربلا
پِھر چراغ اُس نے بُجھایا، برملہ سب سے کہا
ہے جِسے بھی جان پیاری چھوڑ جائے کربلا
وہ جِسے تھوڑا بھی شک ہے عظمتِ اسلام میں
وہ مُخالِف جائے، جا کر دیکھ آئے کربلا

0
40
نواب زادہ ہارون جان رئیسانی شہید
کے لییے۔
ہماری قوم کا روشن سِتارا ڈُوب گیا
وہ زخم کرتا ہُؤا دوستو! قُلُوب گیا
انا کی جنگ کوئی جِیت ہی نہِیں پایا
شہیدِ حق جو ہُؤا ہے یہاں سے خُوب گیا

0
25
اُترے تھے میدان میں، ہارے، ڈُوب گئے
بیڑا غرق کیا اور سارے ڈُوب گئے
آٹا، سبزی، دالیں بس سے باہر ہیں
گھی کا پُوچھ کے شرم کے مارے ڈُوب گئے
ڈِگری ہے پر آب و نان نہِیں مِلتا
ماؤں کے سب راج دُلارے ڈُوب گئے

0
42
کوئی بیٹھا ہے الگ ہو کے، جُدائی کر کے
ہم چلے آئے بڑی دیر دُہائی کر کے
ہم کو آپس میں لڑاتے ہیں تماشے کے لِیئے
لُوٹ لیتے ہیں ہمیں ایک اِکائی کر کے
گھر میں پوچے کے لِیئے ہم نے رکھی تھی مائی
گھر سے بھاگی وہ کہِیں، گھر کی صفائی کر کے

0
47
حُکمراں رنج گھٹانے کے لِیئے آتا ہے؟
جی نہِیں، بوجھ بڑھانے کے لِیئے آتا ہے
رُوکھی روٹی کے لِیئے فرد ترستا ہے یہاں
حُکمراں مال بنانے کے لِیئے آتا ہے
مَیں نے دیکھا ہے کوئی خواب، مِرا بچپن ہے
انڈے بھائی مِرا "آنے" کے لِیئے آتا ہے

0
39
آرام مجھے تجھ بن دو گام نہیں ہو گا
گر ہو گا سحر مجھ کو تو شام نہیں ہو گا
اسلام کے داعی ہیں اور کام ذرا دیکھو
رشوت جو نہیں دو گے تو کام نہیں ہو گا
ہیں ماہرِ طب ایسے گٹھڑی سی تھما دیں گے
جتنی بھی دوا لو گے آرام نہیں ہو گا

0
58
ایک فِتنہ ہو نِرا خاتُون تُم
تُم ثمر پہنو کہ پہنو اُون تُم
ہم یہاں پٹنہؔ میں تنہا رہ گئے
جا بسے ہو کاہے دیرا دُونؔ تُم
تمتماتا ہے رُخِ روشن حُضُور
جنوری میں بھی ہو گویا جُون تُم

0
36
مَیں شعر کہوں گا تو پذِیرائی کرے گا
وہ درد بھرے ساز کو شہنائی کرے گا
وہ سامنے ہو تو ہمہ تن گوش رہُوں گا
کُچھ بھی نہ کرے گا، سُخن آرائی کرے گا
مُمکِن ہے یہ سب اُس سے کہ وہ دُشمنِ جاں ہے
شُہرت کو مِری شاملِ رُسوائی کرے گا

0
35
آپ کو ہم بُھول جائیں کیا کریں
نام تک لب پر نہ لائیں کیا کریں
سب مُرادیں دِل کی پاتے ہیں یہاں
اور ہم دُکھ درد پائیں، کیا کریں
ہم نے وعدہ بُھولنے کا کر لیا
اِس میں آئیں بائیں شائیں کیا کریں

0
36
مَیں نہِیں واقفِ آداب، چلو مان لیا
جُھوٹے ہوتے ہیں مِرے خواب، چلو مان لیا
مُضمحل ہو کے وہاں بیٹھ گیا ایک طرف
مُنتشِر ہیں مِرے اعصاب، چلو مان لیا
جب سے بِچھڑا ہے اُسے چین نہِیں میرے بِنا
سُرمئی آنکھوں میں ہے آب، چلو مان لیا

0
23
ہو کے نا کام بھی آتا ہے مگر جاتا ہے
دِل اڑے ضِد پہ تو یادوں کے نگر جاتا ہے
یاد آتا ہے کوئی عُمر گُزرنے کے ساتھ
اور لمحوں میں کوئی دِل سے اُتر جاتا ہے
کِتنا مشّاق نقب زن ہُوں چُراؤں اسباب
اور اِلزام کِسی اور کے سر جاتا ہے

0
29
جو بھی ہوتا ہے تِرا حال گُزارا کر لے
جیسے گزریں یہ مہ و سال گُزارا کر لے
کب یہ سوچا تھا بہُو چھوڑ کے جائے گی تُجھے
سوچتا کیا ہے مِرے لعل گُزارا کر لے
لے کے بیٹھا ہے گِلہ کیا کہ فِلاں نے لوٹا
بُھوکے کُتّے ہیں اِنہیں پال گُزارا کر لے

0
32
وہ بے خبر ہے تو کیوں باخبر نہِیں ہوتا
سفر کہِیں کا بھی ایسے تو سر نہِیں ہوتا
بھلا لگے جو تُمہیں تُم وہی کرو بیٹا
کِسی بھی بات کا تُم پر اثر نہِیں ہوتا
سفر پہ وہ بھی تو آخر نِکل ہی پڑتے ہیں
کہ جِن کا دشت و بیاباں گُزر نہِیں ہوتا

0
27
کہِیں اجسام بے دم رقص کرتے دِکھ رہے ہیں
کہِیں پر بُھوک سے اب لوگ مرتے دِکھ رہے ہیں
سیاسی لوگ ہیں اِن کا دھرم اِیمان کوئی؟
ابھی گٹھ جوڑ، اب اِلزام دھرتے دِکھ رہے ہیں
کوئی کہہ دے ہمارے دِل ہیں یا بھٹکے سفِینے
کِسی گہرے سمندر میں اُترتے دِکھ رہے ہیں

0
52
وہ میرا خواب تھا، تعبِیر میری تھا ہی نہِیں
بِچھڑ گیا ہے کبھی مُجھ سے جو مِلا ہی نہِیں
مثال دُوں میں بھلا کِس کو آپ کے رُخ سے
زمانہ دیکھ لِیا، کوئی آپ سا ہی نہِیں
یہ کیسا شہر ہے جِس میں نہِیں ہے مے خانہ
کہِیں بھی بادہ و پیمانہ و صُراحی نہِیں

0
27
ہم غرِیبی کی رِدا تان کے سو جاتے ہیں
زخم سب گِنتے ہُوئے آن کے سو جاتے ہیں
شب کو تھکتے ہیں تو فُٹ پاتھ کنارے ہی کہیں
ساتھ چُوری کِیے سامان کے سو جاتے ہیں
بُھوک آنکھوں میں نمی بن کے چمک جاتی ہے
بچّے بُھوکے مِرے دہقان کے سو جاتے ہیں

0
55
فلک پہ لے گا نہ مُجھ کو زمِیں پہ چھوڑے گا
عدم سے لایا گیا تھا وہِیں پہ چھوڑے گا
عِبادتوں کا مِری کُچھ نہ کُچھ صِلہ تو مِلے
بس اِک نشان سا میری جبِیں پہ چھوڑے گا
لہُو پِلا کے جو بیٹا جوان میں نے کِیا
وہ گھر سے لا کے مُجھے اور کہِیں پہ چھوڑے گا

0
34
وہ لاغری میں بھی میدان میں لڑے ہوں گے
جو بے ہنر تھے سمجھ لینا دِن کڑے ہوں گے
تُمہارے چاہنے والوں کی اِک علامت ہے
سِتارے بُجھتی سی آنکھوں میں بھی جڑے ہوں گے
چنابؔ وقت کی اِن سونیوںؔ سے ہار گیا
سبھی کے ڈھال فقط کچّے سے گھڑے ہوں گے

0
35
جگائی ہم نے پہلُو میں وفا کی جُستجُو برسوں
بھٹکنا ہی پڑا درویشوں کو سو کُو بہ کُو برسوں
مقیّد کوئی گُلشن میں ہے پنچھی مُضطرب، گرچہ
"لگایا ڈھیر پُھولوں کا قفس کے رُوبرُو برسوں"
بہار آتے ہی پُھولوں نے اُسے معتُوب ٹھہرایا
کہ جِس نے بیل بُوٹوں کو پِلایا ہے لہُو برسوں

0
62
حالتیں کھنڈر سی ہیں ملگجے ہیں سنّاٹے
دِل حویلی بوسِیدہ گُونجتے ہیں سناٹے
وقت کے مُعلّم نے جوڑ توڑ سِکھلائی
وحشتوں کی تختی پر لِکھ لِیئے ہیں سناٹے
ہو سکی میسّر کب مُدّتوں سے تنہائی
رقص میں ہے وِیرانی ناچتے ہیں سنّاٹے

0
42
جِیون یہ مِرے درد کا افسانہ کوئی ہے
آنکھوں میں مگر جلوۂِ جانانہ کوئی ہے
غم دِل کے درِیچے پہ دِیئے جائے صدائیں
بے ماپ ہے یا درد کا پیمانہ کوئی ہے؟
آئے ہو ابھی، آتے ہی جانے پہ بضِد ہو
اِس طرز سے مِلتے ہو کہ بیگانہ کوئی ہے

0
43
سُکُوں دے کر یہ کیا مُشکل خرِیدی آپ نے ہے
مُبارک ہو سُنا ہے مِل خرِیدی آپ نے ہے
ہے خُوش فہمی کھرا اِک من کا سودا کر لِیا ہے
خُدا کے گھر کے بدلے سِل خرِیدی آپ نے ہے
کِسی کی طوطا چشمی سے ہُؤا یہ راز افشا
یہاں کے لوگ، یہ مِحفِل خرِیدی آپ نے ہے

0
64
ستاتا ہے گگن کا چاند یا تارے، تُمہیں کیا
ہوا مہکی ہُوئی، دریا کے یہ دھارے، تُمہیں کیا
چلے تھے گاڑنے جھنڈے وفا کے عِشق نگری
پِھر ایسا ہے کہ سب کُچھ شوق میں ہارے، تُمہیں کیا
جتایا مِیٹھے لہجے میں کِسی نے پیار ہم سے
ہُوئے محسُوس وہ الفاظ بھی آرے تُمہیں، کیا

0
38
جِتنے دِن کا ساتھ لِکھا تھا، سات رہے
اب کُچھ دِن تو آنکھوں میں برسات رہے
اب نا شُکری کرنا اور مُعاملہ ہے
حاصِل ہم کو عِشق رہا، ثمرات رہے
اندر کی دیوی نے یہ چُمکار، کہا
نرم ہے دِل تو کاہے لہجہ دھات رہے؟

0
47
مرنے دیا مُجھے، نہ ہی جِینے دِیا مُجھے
بانٹا تھا جِس کا، درد اُسی نے دِیا مُجھے
میں جِس مقام پر تھا وہِیں پر کھڑا رہا
لُوٹا مُجھے کِسی نے، کِسی نے دِیا مُجھے
فصلِ خُلوص بو کے تو دیکھو مِرے عزِیز
مَیں نے دِیا ہے سبکو، سبھی نے دِیا مُجھے

0
46
خُود اپنا ہاتھ بس تھامے ہُوئے مَیں رہ گیا ہُوں
صدی کا دُکھ ہُوں جو آنکھوں سے اپنی بہہ گیا ہُوں
کبھی بھی اور کِسی کا حق ہڑپ کرنا نہِیں ہے
یہی بچّوں سے اپنے مرتے مرتے کہہ گیا ہُوں
وہاں سے ہے غُلاموں کا کوئی جرّار لشکر
مگر اِس سمت سے لڑنے کو مَیں اِک شہ گیا ہُوں

0
35
قہقہے ہونٹ مگر زخم کِیے دیتے ہیں
چلو دِکھلاتے نہِیں چاک سِیے دیتے ہیں
کون سُقراط کی مانند پِیے گا پیالہ
آؤ یہ کارِ جہاں ہم ہی کِیے دیتے ہیں
گھر میں مُدّت کے اندھیروں کو مِٹانے کے لیے
اِستعارے کو وہ آنکھوں کے دِیے دیتے ہیں

0
44
جنم لِیا ہے جو اِنساں فروش نگری میں
سکُوت چھایا ہُؤا ہے خموش نگری میں
جو مُنہ کی کھا کے پلٹتا ہے اور بستی سے
نِکالتا ہے وہ سب اپنا جوش نگری میں
اگرچہ چہرے سے یہ سخت گِیر لگتے ہیں
سبھی ہیں دوست صِفَت برف پوش نگری میں

0
52
توڑ کر دِل مِرا بے سبب، جا چُھپے وہ کہاں کیا پتہ
کل رفِیقو جہاں میں مِری، ہو نہ ہو داستاں کیا پتہ
کہہ رہا ہے کوئی جا رہا ہے کِدھر لوٹ آ، لوٹ آ
ہو چلا ہُوں بھلا کِس لئے اِس قدر بد گُماں، کیا پتہ
جِس قدر ہو سکا پیار کو اوڑھنا اور بِچھونا کِیا
پر ہمیشہ خسارے میں تھی کِس لِیئے یہ دُکاں، کیا پتہ

43
پہلے تو دردِ محبّت کے حوالے کرنا
پِھر مِری یاد میں تُم بیٹھ کے نالے کرنا
تُم نے سِیکھا یہ ہُنر کِس سے ہمیں بتلاؤ
تِیرگی زُلف سے، پِھر رُخ سے اُجالے کرنا
ہم نے سمجھا تھا کہ ہے عِشق سفر پُھولوں کا
پر شُمار آپ ابھی پاؤں کے چھالے کرنا

0
41
بیڑی یہ مِرے پاؤں میں پہنا تو رہے ہو
پِھر عہد خُودی توڑ کے تُم جا تو رہے ہو
پلکوں کی مُنڈیروں پہ پرِندوں کو اُڑاؤ
تسلِیم کیا تُم مُجھے سمجھا تو رہے ہو
پچھتاوا نہ ہو کل، یہ قدم سوچ کے لینا
جذبات میں اُلفت کی قسم کھا تو رہے ہو

41
حقِیر جانتا ہے، اِفتخار مانگتا ہے
وہ زہر بانٹتا ہے اور پیار مانگتا ہے
ذلِیل کر کے رکھا اُس کو، اُس کی بِیوی نے
(ابھی دُعا میں) مِعادی بُخار مانگتا ہے
ابھی تو ہاتھ میں اُس کے ہے خاندان کی لاج
گریباں سب کے جو اب تار تار مانگتا ہے

36
علاجِ شِیشِ دِل کرُوں مِلے جو شِیشہ گر کوئی
کوئی مِلا نہِیں اِدھر، مِلے گا کیا اُدھر کوئی
ڈگر پہ عشقِ نامُراد کی چلا تھا بے خطَر
گھسِیٹ، لَوٹ لے چلا مِلا تھا چشمِ تر کوئی
نوِید ہو کہ ہم تُمہارا شہر چھوڑ جائیں گے
بسے تھے جِس کے حُکم پر چلا ہے رُوٹھ کر کوئی

54
بڑے بے شرم حاکِم ہیں، بڑی بے حِس حُکُومت ہے
ذرا بھی کب پتہ اِن کو حیا کیا؟ کیا شرافت ہے؟
ہمیں تو ظُلم سہنے کے لیے بھیجا گیا شائد
جہاں تک دیکھ سکتے ہیں غرِیبی ہے، مُصِیبت ہے
یہ وہ بازار ہے ہر چِیز بِکتی ہے یہاں آ کر
یہاں پر عدل بِکتا ہے کہ رقّاصہ عدالت ہے

184
لا کے چھوڑا ہے مُجھے چھوڑنے والے نے کہاں؟
چین کا سانس لِیا درد کے پالے نے کہاں
اپنی دھرتی سے ہُؤا دُور تو احساس ہُؤا
کھینچ کے لایا ہے روٹی کے، نِوالے نے کہاں؟
جانتا ہُوں کہ تُو نادان سمجھتا ہے مُجھے
اِک ذرا راز کِیا فاش یہ بالے نے کہاں؟

0
60
ہزار پیار کے نغمے میں گُنگُنا کے رہا
مگر جو حرف تھا آنا وہ مُجھ پہ آ کے رہا
نِکال باپ نے گھر سے مُجھے کیا باہر
وہ میرا دوست تھا میں اُس کے گھر میں جا کے رہا
اڑا جو ضِد پہ کبھی بچپنے سے اب تک میں
پہُنچ سے دُور اگر کوئی تھا تو پا کے رہا

0
36
کیوں روا رکھتے ہو مُجھ سے سرد مہری بے سبب
بِیچ میں لانا پڑے تھانہ کچہری بے سبب
میں نے اُس رُخ سے اِسے جِتنا الگ رکھا عبث
آنکھ تھی گُستاخ میری جا کے ٹھہری بے سبب
ناں کِسی پائل کی چھن چھن، ناں کہِیں دستک کوئی
کر رہی ہے وار گہرے رات گہری بے سبب

0
44
جو رات تیرے لیئے قُمقُموں سموئی تھی
وہ رات میں نے فقط آنسُوؤں سے دھوئی تھی
رفِیق چھوڑ گئے ایک ایک کر کے مُجھے
خطا نہِیں تھی کوئی، صِرف راست گوئی تھی
وہِیں پہ روتے کھڑے رہ گئے مِرے ارماں
خُود اپنے ہاتھ سے کشتی جہاں ڈبوئی تھی

0
41
ایک تِتلی مُجھے گُلستاں میں مِلی
ظُلم کی اِنتہا داستاں میں مِلی
غُسل دو جو نہ ہاتھوں سے اپنے کیے
زِندگانی فقط درمیاں میں مِلی
بعد مُدّت اذاں اِک اذانوں میں تھی
رُوح سی اِک بِلالی اذاں میں مِلی

0
83
جِیون بھر کے ارمانوں کا حاصِل ایک مکان
قطعہ، پانی، گارا آدھی سِی سِل ایک مکان
معمُولی سی مانگ ہے میری پُوری ہو سکتی ہے
مانگ رہا ہے مولا میرا بھی دِل ایک مکان
میں نے جو اِک خواب بُنا تھا خوابوں میں بستا ہے
ہو گا میرا عِشق سوایا، ساحِل، ایک مکان

0
65
ناز اُس کے اُٹھاتا ہُوں رُلاتا بھی مُجھے ہے
زُلفوں میں سُلاتا بھی، جگاتا بھی مُجھے ہے
آتا ہے بہُت اُس پہ مُجھے غُصّہ بھی لیکِن
پیار اُس پہ کبھی ٹُوٹ کے آتا بھی مُجھے ہے
در پے ہے مِری جان کے، جو پِیچھے پڑا ہے
وُہ دُشمنِ جاں دوستو بھاتا بھی مُجھے ہے

0
37
بِچھڑا وہ گویا زِیست میں آیا کبھی نہ تھا
اُس نے مِرے مِزاج کو سمجھا کبھی نہ تھا
لہجے میں اُس کے تُرشی بھی ایسی کبھی نہ تھی
دِل اِس بُری طرح مِرا ٹُوٹا کبھی نہ تھا
گو اِضطراب کی تو نہ تھی وجہ ظاہری
دِل کو مگر قرار کبھی تھا، کبھی نہ تھا

0
33
سوچو امیرِ شہر نے لوگوں کو کیا دِیا
بُھوک اور مُفلسی ہی وفا کا صِلہ دیا
کوٹھی امیرِ شہر کی ہے قُمقُموں سجی
گھر میں غرِیبِ شہر کے بُجھتا ہُؤا دِیا
ہم نے تُمہیں چراغ دیا، روشنی بھی دی
تُم نے ہمارے دِل کا فقط غم بڑھا دیا

0
69
ہیں شعر تِرے شُستہ لب و لہجہ حسِیں ہے
پر کیا ہے کہ یہ مُردہ پرستوں کی زمِیں ہے
اے سہمی کسک تُو نے مِرا ساتھ دیا ہے
ہمدرد مِری تُو ہے، تُو ہی دِل کی مکِیں ہے
جو چرب زُباں اُس کو پذِیرائی مِلی ہے
اور اصل جو فنکار ہے وہ گوشہ نشِیں ہے

0
68
مَیں اپنے آپ میں اُلجھا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
کبھی میں کیا تھا، ابھی کیا ہُؤا ہُوں، اُس سےکہو
وُہ جس جگہ پہ مُجھے چھوڑ کر گیا تھا کبھی
اُسی مقام پہ ٹھہرا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
یہ خنجروں سے کریں وار، اُلجھ کِسی سے نہِیں
کہا تھا ماں نے یہ، سہما ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو

0
50
خُود کو آرام سے تُو گھر پر رکھ
اور پَگ عورتوں کے سر پر رکھ
دوستوں نے تو مِہربانیاں کِیں
داغ تُو بھی دِل و جِگر پر رکھ
میں نے قرضہ دیا ہے، جُرم کِیا؟
اور اب تُو اگر مگر پر رکھ

54
اِس، اُس کے لِیئے، اب، نہ کِسی تب کے لِیئے ہے
ہے دِل میں مِرے پیار جو وہ سب کے لِیئے ہے
اِک عُمر اِسی پیاس کی شِدّت میں گُزاری
یہ آنکھ کا پیمانہ مِرے لب کے لِیئے ہے
یہ چہرہ تِرا دِن کے اُجالے کے لِیئے ہے
اور زُلف گھنیری ہے، سو وہ شب کے لِیئے ہے

0
37
اُڑتے تو بھلا کیسے بنا پنکھ پرندے
رہتے تو ہیں اُکتائے بنا پنکھ پرندے
ہم نے تو فقط دانہ دیا، پانی پلایا
آنگن میں گرے آ کے بنا پنکھ پرندے
پر ان کے نکل آئے تو لہجہ تھا کوئی اور
کیا آج ہوئے، کیا تھے بنا پنکھ پرندے

0
42
سفر نے تو مُجھے شل کر دیا ہے
مُعمّا تھا مگر حل کر دیا ہے
وہ آیا نکہتوں کے جُھرمُٹوں میں
بہاروں کو مکمل کر دیا ہے
مُجھے محفوظ کرنا ذات کو تھا
تِری آنکھوں کا کاجل کر دیا ہے

0
48
وہ مُجھ سے جل کے یہ بولے کہ ہو ترقّی میں
ہضم یہ بات نہ ہو تُم رہو ترقّی میں
اُنہیں زوال کا کھٹکا کبھی نہیں ہوتا
خُدا کی یاد جگاتے ہیں جو ترقّی میں
یقین ہے کہ عقِیدت عُرُوج پائے گی
نِگاہیں پائیں گی جب آپ کو ترقّی میں

52
جانِ جاں کوئی نہ ہو، جانِ جہاں کوئی نہ ہو
آہ سِینے میں کوئی، لب پر فُغاں کوئی نہ ہو
آؤ ڈُھونڈیں ہم محبّت، آؤ ڈُھونڈیں آدمی
خاک میں لِتھڑا نہِیں ہو، خُونچکاں کوئی نہ ہو
کون سُنتا ہے تُمہیں اے شاعرِ ناداں، کہ جب
کُچھ سلِیقہ ہی نہ ہو، طرزِ بیاں کوئی نہ ہو

0
48
بُرا تھا یا بھلا جیسا بھی تھا رکھا گیا تھا
تُمہی کہہ دو ہمارا نام کیا رکھا گیا تھا
تُم اپنے آپ میں تھے برہمن، شُودر تھے ہم ہی
جبھی تو بِیچ میں یہ فاصلہ رکھا گیا تھا
ہمیں بچپن میں دوزخ اور جنّت کی خبر تھی
دیانت تھی، کہ دِل میں خوف سا رکھا گیا تھا

0
44
سبز ہوتی ہے کبھی سرخ کہانی، پانی
اور ہوتی ہے شہیدوں کی زبانی، پانی
کیوں اُچھل کر نہِیں قدموں میں گرا شاہوں کے
شرم سے دوستو پانی ہؤا پانی پانی
کیسے پابندی لگی تجھ پہ فرات آج بتا
پھر بھی قائم تھی بھلا کیسے روانی، پانی؟

1
75
اُس کو لایا جا سکتا ہے
تو پِھر سایہ جا سکتا ہے
وِیرانے کو گھر میں لا کر
دشت بسایا جا سکتا ہے
نِیند چُرائی جا سکتی ہے
درد جگایا جا سکتا ہے

1
65
اُجالے رکھ لو مگر تِیرگی تو دو گے ناں؟
مُجھے خبر ہے مُجھے پِھر بھی تُم کہو گے ناں
کڑا جو وقت پڑا لوگ چھوڑ دیں گے مُجھے
کہو کہ تُم تو مِرے ساتھ ساتھ ہو گے ناں؟
بجا کہا کہ میں کرتا رہا ادا کاری
بجا یہ بات کہ مُجھ کو عزِیز ہو گے ناں

0
58
مِٹھڑی (ہمارا گاؤں)
(توسیع کے ساتھ)۔
جہاں پر بھی بسیرا ہو ہمارا، یاد مٹھڑی ہے
ثمر قندؔ و بُخاراؔ ہے، مُراد آبادؔ مٹھڑی ہے
نوابؔ اللہ کو پیارے ہوئے تو دور بدلا ہے
نہیں جو وہ رہے تو اب ستم ایجاد مٹھڑی ہے

0
46
مرض ہے اُس میں وُہ کمتر، حقِیر جانتا ہے
فقِیر ہو گا جو سب کو فقِیر جانتا ہے
میں اُس کی قید سے آزاد ہو چُکا ہُوں مگر
وہ بے وقُوف ابھی تک اسِیر جانتا ہے
تُمہارا کام اگر ہو کوئی تو حُکم کرو
تُمہیں پتہ ہے؟ مُجھے اِک وزِیر جانتا ہے

0
33
تُمہارا عزم ہمیں وحشتوں میں رکھنا ہے
یہ سوچتے ہیں تُمہیں کِن صفوں میں رکھنا ہے
تُمہاری نِیند ہمارے ہی ساتھ جائے گی
خیال اپنا تُمہیں رتجگوں میں رکھنا ہے
مزہ جو پایا تھا ہم نے ہری رُتوں میں کبھی
اُسی مزاج کا پِیلی رُتوں میں رکھنا ہے

0
41
ہمیں جو ضبط کا حاصل کمال ہو جائے
ہمارا عِشق بھی جنّت مِثال ہو جائے
سُنا ہے تُم کو سلِیقہ ہے زخم بھرنے کا
ہمارے گھاؤ کا بھی اِندمال ہو جائے
ذرا سی اُس کے رویّے میں گر کمی دیکھیں
طرح طرح کا ہمیں اِحتمال ہو جائے

0
49
اچُھوت کوئی، کِسی برہمن میں کیا تفرِیق
تُمہارے اُجلے، مِرے میلے من میں کیا تفرِیق
دھکیل کر جو کرے زن پرے خصم خُود سے
تو فاحشہ کے کسِیلے بدن میں کیا تفرِیق
شجر میں ایسا، نہِیں جِس پہ برگ و بار کوئی
رہُوں میں دشت یا صحنِ چمن میں کیا تفرِیق

0
54
جانتا کوئی نہِیں آج اصُولوں کی زباں
کاش آ جائے ہمیں بولنا پُھولوں کی زباں
موسمِ گُل ہے کِھلے آپ کی خُوشبُو کے گُلاب
بولنا آ کے ذرا پِھر سے وہ جُھولوں کی زباں
یہ رویّہ بھی ہمیں شہر کے لوگو سے مِلا
پُھول کے مُنہ میں رکھی آج ببُولوں کی زباں

0
47
محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا
نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا
نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے
دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا
گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ
بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا

0
71
تو آج ظرف تُمہارا بھی آزماتے ہیں
اگر ہو اِذن تُمہیں آئینہ دِکھاتے ہیں
کہو تو جان ہتھیلی پہ لے کے حاضِر ہوں
کہو تو سر پہ کوئی آسماں اُٹھاتے ہیں
ہمارا شہر ہے شمشان گھاٹ کے جیسا
تو چِیخ چِیخ کے کیا اِن کو ہم جگاتے ہیں

0
76
آج کھائی ہے چار دِن کے بعد
کِتنی مِیٹھی لگی ہے روٹی آج
آؤ ہم اِس کو نوچ کر کھائیں
شرم کیسی ہے، اِس میں کیسی لاج؟؟
حُکمرانوں نے اِنتہا کر دی
بے ضمِیری کی، بے حیائی کی

43
میرے ہونٹوں سے پہلے ہنسی چِِھینتا
پِھر مِرا دِل، مِری زِندگی چِھینتا
اور لُٹتے کو ہی پاس کیا تھا مِرے
آنکھ میں رہ گئی تھی نمی، چِھینتا
جو اندھیروں میں پل کر ہُؤا خُود جواں
کیا بھلا وہ مِری آگہی چِھینتا

0
43
وہ ہم سے بد گُمان رہے، بد گُمان ہم
سو کیا گئے کہ چھوڑ کے نِکلے مکان ہم
فاقے پڑے تو پاؤں تلے (تھی زمِیں کہاں)
ایسے کہاں کے عِشق کے تھے آسمان ہم
اب یہ کُھلا کہ جِنسِ محبّت تمام شُد
پچھتائے اپنے دِل کی بڑھا کر دُکان ہم

0
48
کسی کے درد کو سینے میں پالتا کیوں ہے
نئے وبال میں وہ خود کو ڈالتا کیوں ہے
پسند ہے جو اسے خود رہے غلاظت میں
شریف لوگوں پہ چِھینٹے اُچھالتا کیوں ہے
کسی سفینے کو ویران سے جزیرے میں
جو لا کے چھوڑ دیا تو سنبھالتا کیوں ہے

0
44
نجانے مُجھ سے کیا پُوچھا گیا تھا
مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا
مُحیط اِک عُمر پر ہے فاصلہ وہ
مِری جاں بِیچ جو رکھا گیا تھا
سُنو سرپنچ کا یہ فیصلہ بھی
وہ مُجرم ہے جِسے لُوٹا گیا تھا

0
93
بنے پِھرتے ہیں وہ فنکار لوگو
ازل سے جو رہے مکّار، لوگو
کوئی کم ظرف دِکھلائے حقِیقت
ہر اِک جا، ہر گھڑی ہر بار لوگو
ہُوئے ہیں اہلِ کُوفہ کے مُقلّد
ہمارے آج کل کے یار لوگو

0
113
بجا أنکھیں ہماری تھیں مگر منظر پرائے
ہمیں کچھ دِن تو رہنا تھا مگر تھے گھر برائے
نجانے کِس کی آنکھوں میں اتاری نیند اپنی
ہمیں بانہوں میں تھامے رہ گئے بِستر پرائے
وہ کیا آسیب نگری تھی کہ جس میں سب ادھورے
کہیں دھڑ تھے کہیں دھڑ پر لگےتھے سر پرائے

0
66
نِیچی ذات
بہُت کم ظرف نِیچی ذات کا ہے
یقیں پُختہ مُجھے اِس بات کا ہے
نہیں آدابِ محفل اُس کو لوگو
کہوں گا میں تو جاہِل اُس کو لوگو
ذرا بھر بھی نہِیں تہذِیب جِس کو

0
50
کبھی جھانکو صنم خانے میں آ کر
رہو کُچھ دِن تو وِیرانے میں آ کر
وہی خالق نُمایاں جا بجا ہے
کُھلا ہے مُجھ پہ بُت خانے میں آ کر
اِرادہ تو نہِیں تھا میرا لیکن
بہایا خُوں کِسی طعنے میں آ کر

0
86
سند کاغذ کو ہی مانو گے اب کیا
مجھے کاغذ کے پُرزے کی طلب کیا
مِرے بچّے، مِرا اعزاز ہوں گے
طرف داری رہے گی بِیچ تب کیا؟
کوئی کھوجی لگائے کھوج آ کر
مِری محرومیوں کا ہے سبب کیا

0
62
اگرچہ مہربانی تو کرے گا
وہ پھر بھی بے زبانی تو کرے گا
عطا کر کے محبّت کو معانی
جِگر کو پانی پانی تو کرے گا
بڑے دِن سے عدُو چُپ چُپ ہے یارو
کہ حملہ نا گہانی تو کرے گا

0
77
وہ مُجھ میں رہ گئی کوئی کمی ہے
مِرا دِل ہے، نظر کی روشنی ہے
سجی سازوں پہ میری دھڑکنوں کے
کھنکتی، کھنکھناتی راگنی ہے
اُسے چاہت کِسی کی مانتا ہُوں
نہ ہو گی، پر مُجھے اُس شخص کی ہے

0
60
ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں
وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں
فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں

0
84
لو کرتے ہیں نِباہ چلو چار دِن کے بعد
تم اپنے دِل کی بات کہو چار دِن کے بعد
مسند پہ دِل کی تُم کو بِٹھایا ہے آج سے
خُوں بن کے تُم رگوں میں بہو چار دِن کے بعد
او جانے والے تُم جو چلے ہو عدم کو آج
ہم بھی اُدھر کو آئیں گے دو چار دِن کے بعد

0
75
دِکھا ہے ایک چہرہ اوٹ میں سے
کھرا پایا ہے ہم نے کھوٹ میں سے
تُم اپنے ہاتھ کا دو زخم کوئی
سو پُھوٹے روشنی اُس چوٹ میں سے
خُوشی کے شادیانے بج رہے ہیں
چلا ہے گھوٹ کوئی گوٹ میں سے

0
67
ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو
بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو
اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت
بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو
لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے
مِلائیں ہاں میں ہاں کب تک، کہاں تک جی حضُوری ہو

0
44
میں کور چشموں میں اب آئینے رکُھوں گا کیا
کوئی پڑھے گا نہیں مُجھ تو لِکُھوں گا کیا؟
میں دِل سے تھوڑی یہ کہتا ہوں "تُم بِچھڑ جاؤ"
تُمہارے ہِجر کے صدمے میں سہہ سکُوں گا کیا؟
کوئی جو پُوچھے کہ شِعر و سُخن میں کیا پایا
تو سوچتا ہوں کہ اِس کا جواب دُوں گا کیا؟

1
1218
پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں
ہمیں فنا ہے مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں
ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بِیچ بھن٘ور
بچا کے لائے کوئی بادباں تو وہ بھی نہِیں
جو سچ کہیں تو خزاں اوڑھ کے بھی خُوش ہیں بہُت
نہِیں اُجاڑ مگر گُلسِتاں تو وہ بھی نہِیں

0
45
بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے
جُدا کر کے ہمیں دیکھا مُقدّر پانی پانی تھے
تراشِیدہ صنم کُچھ دِل کے مندر میں چُھپائے ہیں
کہِیں پر کابُلی تھے بُت کہِیں پر اصفہانی تھے
ہوا بدلا نہِیں کرتی کہ جیسے تُم نے رُخ بدلا
پرائے ہو گئے؟ کل تک تُمہاری زِندگانی تھے

0
51
ہم ترستے ہیں عمدہ کھانوں کو
موت پڑتی ہے حکم رانوں کو
جرم آزاد پھر رہا ہے یہاں
بے کسوں سے بھریں یہ تھانوں کو
چھپ کے بیٹھے گا تُو کہاں ہم سے
جانتے ہیں تِرے ٹھکانوں کو

0
42
بجا کہ دُور، مگر آس پاس جیسے ہو
وہ اپنے آپ میں خُوشبُو ہے (باس جیسے ہو)
کِسی کو تن پہ سجایا ہے پیرہن کی طرح
میں اُس کی لاج، وہ میرا لِباس جیسے ہو
دھڑک دھڑک کے مچلتا ہے میرا دِل ایسے
اِسے کِسی کے پلٹنے کی آس جیسے ہو

0
75
اک ظلم اُس پہ دیکھو آنکھیں دِکھا رہا ہے
'انجام بے حیا کا نذدیک آ رہا ہے"
پچھلی دہائیوں میں پاپی اکائیوں کا
سب جانتے ہو یارو کردار کیا رہا ہے
دھرتی ہے ایک ڈھانچہ، کرگس ہیں چار جانب
اک نوچ کر گیا اب اک اور آ رہا ہے

0
58
کون آیا ہے یہ سر بہ سر روشنی
ہو گیا آج تو گھر کا گھر روشنی
تیرگی راج کرتی تھی چاروں طرف
 راہبر بن گئی اب مگر  روشنی 
ایک دن جائیں گے ہم بھی پی کے نگر
ہم سے لپٹے گی تب دوڑ کر روشنی

0
85
ہمارا رُتبہ، تُمہارا مقام یاد رہے
خِرد سے دُور تُمہیں عقلِ خام یاد رہے
ادا کِیا تو ہے کِردار شاہ زادے کا
مگر غُلام ہو، ابنِ غُلام یاد رہے
ابھی ہیں شل مِرے بازُو سو ہاتھ کِھینچ لِیا
ضرُور لُوں گا مگر اِنتقام یاد رہے

0
51
آنکھوں میں نہ پڑ جائے برسات تُمہیں کوئی
بخشے ہے نئی وحشت ہر رات تُمہیں کوئی
بس اِتنا سمجھ لیجے وابستہ نہِیں تُم سے
بتلا تو نہِیں سکتا ہر بات تُمہیں کوئی
آ جاؤ گھڑی بھر کو ماضی میں پلٹ جائیں
کل مُجھ سے جھپٹ لے گی بارات تُمہیں کوئی

0
47
خُود کو آنسُو کر لِیا ہم نے خُوشی کرتے ہُوئے
موت کی آغوش میں ہیں زِندگی کرتے ہُوئے
کیا کہیں کیسی شِکست و ریخت کا تھا سامنا
اپنے ارمانوں سے دامن کو تہی کرتے ہُوئے
کُچھ پتہ ہی نا چلا من پر کہاں شب خُوں پڑا
دِل لگی میں، دِل لگی سے، دِل لگی کرتے ہُوئے

0
75
غزل۔
میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا
لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا
ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے
چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا
میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں

0
74
مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھا
بتا کر ہی تُمہارے شہر آنا چاہِیے تھا
مِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تُمہاری
تُمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہِیے تھا
مِرے بچّے گئے ہیں کل سے پِکنِک کا بتا کر
نہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہِیے تھا

0
57
گیا جہان سے ادنا یا کوئی اعلا گیا
کسی کا غم بھی کہاں دیر تک سنبھالا گیا
سلیقہ اس میں مجھے اک ذرا دِکھے تو سہی
کہا جو کام ہمیشہ وہ کل پہ ٹالا گیا
قُصور ہو گا تُمہارا بھی کچھ نہ کچھ گُڑیا
سبب تو ہے جو تمہیں گھر سے یوں نکالا گیا

0
59
خطا کا پُتلا ہوں مولا، گُناہگار ہُوں میں
تِرا کرم مُجھے درکار تار تار ہُوں میں
یہ دُنیا دار مُجھے یُوں حقِیر مانتے ہیں
گُلوں کے بِیچ میں جیسے کہ ایک خار ہُوں میں
تمام عُمر گُزاری ہے دِل دُکھاتے ہُوئے
نہِیں ہے جِس میں کشِش ایسا کاروبار ہُوں میں

0
72
یقِیں نہِیں تو محبّت کو آزماتا جا
لُٹا خُلوص، وفاؤں کے گِیت گاتا جا
تقاضہ تُجھ سے اگر کر رہی کوئی ممتازؔ
دل آگرہؔ ہے محل اِس پہ تُو بناتا جا
بجا کہ ہم نے تُجھے ٹُوٹ کر ہے سراہا، پر
اب اِس قدر بھی نہِیں رُوح میں سماتا جا

56
بے حیائی کی اِنتہا ہے یہ
یہ حکُومت ہے یا بلا ہے یہ
بُھوک سے لوگ مر رہے ہیں یہاں
اور خوابوں میں مُبتلا ہے یہ
بُھول ہم سے ہُوئی جو اِس کو چُنا
لوگو بُھگتو جو کی خطا ہے یہ

0
103
بس ایک ہی حل اِس کا مِرے پاس ہے لوگو
جو حُکمراں بک جائیں وہ بکواس ہے لوگو
کِِس بُھوک سے گُزرے ہیں، ہمیں پیاس بلا کی
پُوچھا ہے کبھی، اِن کو یہ احساس ہے لوگو؟
ہم جِس کو سمجھ بیٹھے تھے کشکول شِکن ہے
افسوس وہی ذات کا ہی داس ہے لوگو

0
51
جِسم تھا نُور اِسے ہم نے ہی پہنائی رات
کھا گئی دِن کے اُجالوں کو یہاں چھائی رات
شب کے دامن میں فقط خواب ہے محرُومی ہے
ہم کو مفہُوم یہ سمجھانے چلی آئی رات
ہم تو خُود اپنی ہتھیلی پہ جلا لائے چراغ
پِھر جو اشکوں کے سِتاروں سے نہ سج پائی رات

0
52
اے خُدا اب تو مِرا تُو ہی بھرم قائِم رکھ
میری آنکھوں کو نمی دی ہے تو نم قائِم رکھ
سرخمِیدہ ہے تِرے سامنے اور یُوں ہی رہے
عِجز بڑھتا ہی رہے، اِس میں یہ خم قائِم رکھ
کیا کہُوں میرے گُناہوں کی نہِیں کوئی حدُود
مُجھ خطا کار پہ تُو اپنا کرم قائِم رکھ

0
100
بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی
تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی
حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری
گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی
مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا
کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی

0
91
عوام بُھوک سے دیکھو نِڈھال ہے کہ نہِیں؟
ہر ایک چہرے سے ظاہِر ملال ہے کہ نہِیں؟
تمام چِیزوں کی قِیمت بڑھائی جاتی رہی
غرِیب مارنے کی اِس میں چال ہے کہ نہِیں؟
پہُنچ سے پہلے ہی باہر تھا عیش کا ساماں
فلک کے پاس ابھی آٹا، دال ہے کہ نہِیں؟

0
60
لُٹایا ہے مِہران، تھر کھا گئی ہے
نہ کھانا تھا ہرگز مگر کھا گئی ہے
یہ فن کھا گئی ہے، ہُنر کھا گئی ہے
حکُومت غرِیبوں کے گھر کھا گئی ہے
مِلی ہے قیادت جو بے کار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے

1
48
تسلِیم ہم شِکست کریں یا نہِیں کریں
اپنی انا کو پست کریں یا نہِیں کریں
اِک شب کا ہے قیام رہو تُم ہمارے ساتھ
کھانے کا بند و بست کریں یا نہِیں کریں
شوہر بِچارے سوچ میں ڈُوبے ہُوئے ہیں آج
بِیوی کو زیرِ دست کریں یا نہِیں کریں

0
52
تھا بے سکت ہوا میں اُچھالا گیا تھا جب
بے روزگار گھر سے نِکالا گیا تھا جب
ناکامیوں نے مُجھ میں بڑی توڑ پھوڑ کی
محرُومیوں کی گود میں ڈالا گیا تھا جب
اُس نے تو صاف آنے سے اِنکار کر دیا
احقر منانے، حضرتِ اعلا! گیا تھا جب

0
54
لعنت ہو حُکمرانوں کے ایسے نِظام پر
افلاس مُنتظر ہے جہاں گام گام پر
ہر روز قِیمتوں میں اِضافہ ہے بے پناہ
جُوں تک بھی رِینگتی نہیں ابنِ غُلام پر
فاقوں سے لوگ خُود کُشی آمادہ ہوگئے
"مہنگائی بم" گِرا ہے نِہتّے عوام پر

0
61
ایک ہم تھے سر پِھرے جو جل بُجھے لوگوں میں تھے
ورنہ جِس کو دیکھتے معیار کے لوگوں میں تھے
کون ظالِم حُکمراں کی بات کا دیتا جواب
لوگ جِتنے تھے وہاں سب سر کٹے لوگوں میں تھے
کون سی بستی ہے یہ, ہم کِس نگر میں آ گئے؟؟
کل تلک رنگوں میں تھے ہم' پُھول سے لوگوں میں تھے

0
91
اِک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا
پاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گا
میں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگی
اب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گا
کل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نے
سب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گا

0
103
جو ہمارے بِیچ میں تھا فاصلہ رہنے دیا
اپنی کشتی کا پُرانا نا خُدا رہنے دیا
لُوٹ کا تھا مال آخِر بانٹنا تو تھا ضرُور
ہم نے اپنا لے لیا بخرا، تِرا رہنے دیا
روشنی میں بات بربادی کی ہو سکتی نہ تھی
اِس لِیئے تو سب چراغوں کو بُجھا رہنے دیا

0
108
تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہا
رہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہا
خبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟
تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہا
بجا کہ رُتبہ کوئی عین قاف لام کا ہے
بلند سب سے مگر عین شِین قاف رہا

0
64
بس رہے ہیں اس نگر میں جِن و اِنساں ایک ساتھ
یہ رِوایت چل پڑی ہے ظُلم و احساں ایک ساتھ
اب توقع ہم سے رکھنا خیر خواہی کی عبث
ہم نے سارے توڑ ڈالے عہد و پیماں ایک ساتھ
چھا گئی ہے زِندگی پر اب تو فصلِ رنج و غم
جھیلتے ہیں زخمِ دوراں، قیدِ زنداں ایک ساتھ

0
74
سلامت چاہتے ہو دِل تو اِتنی بات مانو گے
تُمہیں لینا پڑے جو فیصلہ وہ زہن سے لو گے
پتا کیا وقت کیسا کھیل کھیلے، ہم بِچھڑ جائیں
کہاں ہوں گے نجانے ہم، نجانے تُم کہاں ہو گے
محبّت کام کیا آتی، ہمارا حال تو دیکھو
اِسی کا معجزہ کہہ لو ہُوئے ہم ہیں مرن جوگے

0
60
اب نہِیں ہم سے کوئی درد سنبھالا جائے
گِن کے لے لو جی امانت کہ یہ بالا جائے
تُم کوئی حُکم کرو اور نہِیں ہو تعمِیل
حُکم تو حُکم، اِشارہ بھی نہ ٹالا جائے
جِس کو آدابِ محبّت کا نہِیں ہے احساس
ایسے گُستاخ کو محفل سے نِکالا جائے

0
60
کوئی بھی سچّا نہِیں ہے، سب اداکاری کریں
آؤ مِل کر دوست بچپن کے، عزا داری کریں
اِن کو اپنے آپ سے بڑھ کر نہِیں کوئی عزِیز
پیار جُھوٹا جو جتائیں اور مکّاری کریں
بھیڑ بکری کی طرح یہ بس میں ٹھونسیں آدمی
اور بولیں اور تھوڑی آپ بیداری کریں

0
55
 جو بڑا جِتنا ہے ڈاکُو اُس بڑے منصب پہ ہے
آہ و زاری پر ہے دُنیا اور شِکوہ لب پہ ہے
حُکم جاری کر دیا ہے دیس کے حاکِم نے یہ
ضابطہ جو میں نے رکھا ہے وہ لازِم سب پہ ہے
بُھوک سے مجبور ہو کر لوگ خُود سوزی کریں
اور حاکِم ہے کہ ہر دِن نِت نئے کرتب پہ ہے

0
70
کیا بتائیں دوستو دُنیا نے توڑا کِس طرح
ریشۂِ اُمِید سے پِھر دِل کو جوڑا کِس طرح
تُم نے ماضی کو کُریدا ہے تو پِھر اِتنا کہو
زخم ہو گا مُندمِل، جائے گا پھوڑا کِس طرح؟؟
تُم نے تو حد کر ہی دی ہے ظُلم و اِستبداد کی
اِک ذرا سی بات پر دِل کو نِچوڑا کِس طرح

0
99
کُچھ نہِیں پایا ہے ہم نے اِس بھرے سنسار میں
پُھول سے دامن ہے خالی گر چہ ہیں گُلزار میں
پِھر محبّت اِس طرح بھی اِمتحاں لیتی رہی
جیب خالی لے کے پِھرتے تھے اِسے بازار میں
ہم نے ہر ہر بل کے بدلے خُوں بہایا ہے یہاں
تب کہِیں جا کر پڑے ہیں پیچ یہ دستار میں

0
88
وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو
نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو
کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو
ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو
کب کہا میں نے تعلُّق وہ پُرانا ہو بحال
بس دِکھاوے کو فقط تُم سے کوئی راہ تو ہو

48
غم کی کِس شکل میں تشکِیل ہُوئی جاتی ہے
آدمیت کی بھی تذلِیل ہُوئی جاتی ہے
ہر قدم زِیست چھنکتی ہے چھناکا بن کر
جِس طرح کانچ میں تبدِیل ہُوئی جاتی ہے
اُس کے حِصّے کی زمِینیں بھی مِرے ہاتھ رہِیں
مُستقِل طور پہ تحصِیل ہُوئی جاتی ہے

0
114
کب ہم نے کہا تُم سے محبّت ہے، نہِیں تو
دِل ہِجر سے آمادۂِ وحشت ہے، نہِیں تو
باتیں تو بہُت کرتے ہیں ہم کُود اُچھل کر
اِس عہد میں مزدُور کی عِزّت ہے، نہِیں تو
مزدُوری بھی لاؤں تو اِسی کو ہی تھماؤں
بِیوی میں بھلا لڑنے کی ہِمّت ہے، نہِیں تو

0
51
دیکھا ہے جو اِک میں نے وہی خواب بہُت ہے
ورنہ تو وفا دوستو! کمیاب بہُت ہے
یہ دِل کی زمِیں بنجر و وِیران پڑی تھی
تھوڑی سی ہُوئی تُُجھ سے جو سیراب بہُت ہے
کل لب پہ تِرے شہد بھری بات دھری تھی
اور آج کے لہجے میں تو تیزاب بہُت ہے

0
98
وعدہ کرنا بھی نہِیں تُجھ کو نِبھانا بھی نہِیں
سب ہے معلُوم تُُجھے لوٹ کے آنا بھی نہِیں
رہنے دیتا ہی نہِیں تُو جو درُونِ دِل اب
اور مِرا دِل کے سِوا کوئی ٹِھکانہ بھی نہِیں
کِتنے جُگنُو تھے، مِرے دوست ہُوئے گرد آلُود
اب مُجھے دِیپ محبّت کا جلانا بھی نہِیں

48
اِک شخص کے جانے سے بدل جاتی ہے دُنیا
پِھر آہ بھی کرلو تو مچل جاتی ہے دُنیا
میں پیار کا طالب جو ہُؤا اہلِ جہاں سے
زردی سی کوئی چہرے پہ مل جاتی ہے دُنیا
جِس جا پہ کبھی تھا میں ابھی تک بھی وہِیں ہُوں
میں دیکھتا رہتا ہوں نِکل جاتی ہے دُنیا

1
89
غزل
سُناؤں گا تُمہیں اے دوست میں فُرصت سے حال اپنا
مہِینہ چین سے گُزرا، نہ دِن، گھنٹہ نہ سال اپنا
تُمہارے ہِجر و حرماں سے کہُوں کیا حال کیسا ہے
سمجھ لِیجے کہ ہونے کو ہے اب تو اِنتقال اپنا
نہِیں ہوتا تو ہم کب کا جُھلس کر راکھ ہو جاتے

0
66
غزل
بینک میں کھاتہ محبّت کا بھی کھولا جاتا
عِشق لیژر کو ہر اِک لمحہ ٹٹولا جاتا
چیک بھرتا جو کبھی کیش کرانے کے لِیئے
"کھاتہ خالی ہے" بڑے پیار سے بولا جاتا
کاش تریاق تِرے لب کا مُیسّر آتا

0
67
شام بھی ہو جائے گی یہ دِل نشِیں آئے گا وہ
آرزوئیں ہو رہی ہیں جاگزیں آئے گا وہ
پہلے بھی وعدوں سے اپنے کب کِیا ہے اِنحراف
اب وچن جو دے دیا تو بِالیقیں آئے گا وہ
مُڑ گیا تھا موڑ جو پہلے کبھی اِک موڑ پر
آخرِش تھک ہار کر مُڑ کر وہیں آئے گا وہ

0
52
گو پر تو نہیں پھر بھی آزاد نہیں کرنا
نا شاد رکھو مجھ کو تم شاد نہیں کرنا
قد کاٹھ اگر دو گے، سمجُھوں گا تمہیں بونا
بونا ہی رکھو مجھ کو شمشاد نہیں کرنا
تم عام سی لڑکی ہو، میں عام سا لڑکا ہوں
شیریںؔ نہ سمجھ بیٹھو، فرہادؔ نہیں کرنا

0
125
دیکھو تو مِرے دل پہ یہ جو چھالا ہؤا ہے
اس واسطے تو پیار کو بھی ٹالا ہؤا ہے
ہاں کر دو مری جان تِرا آیا ہے رشتہ
اور لڑکا بھی تو دیکھا ہؤا، بھالا ہؤا ہے
سب چھوڑ کے آئے تھے، مگر (آج کراچی)
ہم بِچھڑے ہُوؤں کے لیےانبالا ہؤا ہے

0
133
وہ دے گا اگر مجھ کو تو کیا دے گا مُجھے
بس رونے کی ہی شب کو سزا دے گا مُجھے
ہے مِیر کے قبضے میں زمینوں کا حساب
بہتر ہی صلہ اس کا خدا دے گا مُجھے
میں پاؤں سے معذور ہوں اک بات کُہوں
گھر کے لیئے کچھ سودا ہی لا دے گا مُجھے؟

0
84
پِھر اُس کے بعد تو تنہائِیوں کے بِیچ میں ہیں
کہ غم کی ٹُوٹتی انگڑائِیوں کے بِیچ میں ہیں
غرور ایسا بھی کیا تُجھ کو شادمانی کا
کِسی کی چِیخیں جو شہنائِیوں کے بِیچ میں ہیں
ہمیں تو خوف سا لاحق ھے ٹُوٹ جانے کا
تعلُّقات جو گہرائِیوں کے بِیچ میں ہیں

0
118
وُہ میرے ھاتھ سے یُوں بھی نِکلتا جاتا تھا
عجِیب شخص تھا خوابوں میں ڈھلتا جاتا تھا
وُہ شام کِس کی امانت تھی؟ کِس کو سونپ آیا؟
نِدامتوں سے مِرا دل پِگھلتا جاتا تھا
مُجھے بھی روگ تھا جس کا علاج کوئی نہ تھا
اُسے بھی دُکھ تھا کوئی، جِس میں گلتا جاتا تھا

0
113
برف پر چاند کی کِرنوں نے تِرا نام لِکھا
میں نے رادھاؔ کی طرح تُجھ کو فقط شامؔ لِکھا 
تیری آنکھوں سے محبّت کی چھلکتی ہے مئے
یُوں ہی نینوں کو تیرے میں نے نہِیں جام لِکھا
صُبح پُھوٹی ھے کِناروں سے تِرے آنچل کے
 کھو کے زلفوں میں تِری شام نے انجام لِکھا 

3
356
آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے
آشنا سے یہ چہرے بام پر نہیں ہوں گے
دل پہ ڈال کر ڈھاکہ چُھپ کے بیٹھ جاتے ہیں
جا کے دیکھ لیں لیکن، لوگ گھر نہیں ہوں گے
پی کے ہم بہکتے تھے چھوڑ دی ہے اب یارو
کھائی ہے قسم ہم نے، ہونٹ تر نہیں ہوں گے

0
200
وُه شور ہے کہ یہاں کُچھ سُنائی دیتا نہیں
تلاش جِس کی ہے وه کیوں دِکھائی دیتا نہیں 
سُلگ رہا ہوں میں برسات کی بہاروں میں
یِه میرا ظرف کہ پِھر بھی دُہائی دیتا نہیں
نجانے  کتنی مشقّت سے پالتی ہے یتیم
ہے دُکھ کی بات کہ اِمداد بھائی دیتا نہیں

0
130
ہے اِس کا ملال اُس کو، ترقّی کا سفر طے
کیوں میں نے کیا، کر نہ سکا وہ ہی اگر طے
جو مسئلہ تھا اُن کا بہت اُلجھا ہؤا تھا
کُچھ حِکمت و دانِش سے کِیا میں نے مگر طے
ہو جذبہ و ہِمّت تو کٹِھن کُچھ بھی نہِیں ہے
ہو جائے گا اے دوستو دُشوار سفر طے

0
1
113
غزل
اِک کام تِرے ذِمّے نمٹا کے چلے جانا
میں بیٹھا ہی رہ جاؤں تُم آ کے چلے جانا
دِل کو ہے یہ خُوش فہمی کہ رسمِ وفا باقی
ہے ضِد پہ اڑا اِس کو سمجھا کے چلے جانا
سِیکھا ہے یہی ہم نے جو دِل کو پڑے بھاری

0
191
یقیناً یہ بڑا احسان ہو گا
نیازِ حُسن جو کُچھ دان ہوگا
بُجھا لینے دو پہلے پیاس من کی
پِھر اُس کے بعد جو فرمان ہو گا
مکاں ہم نے بھی چھوڑا، تُم گئے تو
بُجھے دِل کی طرح وِیران ہو گا

1
109
یہ خوش گمانی تھی کِردار جاندار ہوں میں
مگر یہ سچ ہے کہ بندہ گناہگار ہوں میں
گوارا اہلِ چمن کو نہیں ہے میرا وجود
وہ اِس لیئے بھی کہ پھولوں کے بیچ خار ہوں میں
میں اُٹھ کے گاؤں سے آیا ہوں، شہر کے لوگو!
کسی کو راس نہ آیا ہوں ناگوار ہوں میں

0
87
مِیت من کو بھا جائے، رُوپ وہ سجا لیں گے
پیار ہولی کھیلیں گے، رنگ ہم اُچھالیں گے
جِتنی دُور جا بیٹھو ڈُھونڈ کر ہی لیں گے دم
تم نے دِل نِچوڑا ہے، ہم تو خُوں بہا لیں گے
ہم بھی کم نہیں تُم سے، پیار کو سمجھتے ہیں
تُم نے یاد پالی ہے، ہم بھی درد پالیں گے

0
109
بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو
نہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تو
وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا
گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو
کہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سے
نہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو تو

0
74
دیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میں
بس تُم کو نہیں اِس کا پتا دیکھتا ہوں میں
چہروں کی لکِیروں کے مُجھے قاعدے از بر
پڑھتا ہوں وہی جو بھی لِکھا دیکھتا ہوں میں
ماضی کے جھروکوں سے نہیں جھانک ابھی تُو
(غش کھا کے گِرا) شخص پڑا دیکھتا ہوں میں

0
70
جو گِیت اوروں کے بے وجہ گانے لگتے ہیں
تو ہوش دو ہی قدم میں ٹِھکانے لگتے ہیں
بِگاڑنا تو تعلُّق کا ہے بہت آساں
اِسے بنانے میں لیکِن زمانے لگتے ہیں
کبھی وہ آ نہِیں سکتا کبھی ہے رنجِیدہ
مُجھے تو یہ کوئی جُھوٹے بہانے لگتے ہیں

0
64
چلو اب غور کر لیتے ہیں شائد کُچھ سُنائی دے
محبّت ہر قدم کم ظرف لوگوں کی دُہائی دے
لِکھی ہے میں نے عرضی اِس عِلاقے کے وڈیرے کو
مِرا لُوٹا ہؤا سامان واپس مُجھ کو بھائی دے
بڑھی مہنگائی تو یارو، ہوئی ہے سرگِرانی بھی
خدایا پھیر دے بچپن، مرے دل کو صفائی دے

0
52
کہاں ہے پیار کی تھپکی، پذِیرائی کہاں ہے
تبھی تو شاعری میں دوست گہرائی کہاں ہے
میں کِس کے سامنے اپنا دلِ بیتاب کھولوں
نیا ہوں شہر میں اب تک شناسائی کہاں ہے
کبھی تھی اِن سے وابستہ کہانی، جانتے ہو
سجی تو ہیں مگر آنکھوں میں بِینائی کہاں ہے

0
72