مرض ہے اُس میں وُہ کمتر، حقِیر جانتا ہے |
فقِیر ہو گا جو سب کو فقِیر جانتا ہے |
میں اُس کی قید سے آزاد ہو چُکا ہُوں مگر |
وہ بے وقُوف ابھی تک اسِیر جانتا ہے |
تُمہارا کام اگر ہو کوئی تو حُکم کرو |
تُمہیں پتہ ہے؟ مُجھے اِک وزِیر جانتا ہے |
ہُؤا ہے پار جو حلقُوم سے یہ اصغر کے |
لبوں پہ روتی رہی پیاس تِیر جانتا ہے |
اگرچہ شعر کا مُجھ کو سلِیقہ کُچھ بھی نہِیں |
شرف ہے، ذوقؔ شناسا ہے، مِیرؔ جانتا ہے |
لڑاؤں پنجہ تو اب بھی شِکست دُوں اُس کو |
عجب جواں ہے مُجھے پِھر بھی پِیر جانتا ہے |
سوال کرنا پڑا ہے جو آج مُجھ کو رشِید |
بٹا ہُوں ٹُُکڑوں میں کِتنے، ضمِیر جانتا ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات