ہزار پیار کے نغمے میں گُنگُنا کے رہا |
مگر جو حرف تھا آنا وہ مُجھ پہ آ کے رہا |
نِکال باپ نے گھر سے مُجھے کیا باہر |
وہ میرا دوست تھا میں اُس کے گھر میں جا کے رہا |
اڑا جو ضِد پہ کبھی بچپنے سے اب تک میں |
پہُنچ سے دُور اگر کوئی تھا تو پا کے رہا |
خُود اپنی کرنی تھی، میں نے صِلہ بھی پایا ہے |
نِکالا خُلد سے حق نے، زمِیں پہ آ کے رہا |
اندھیرا شہر تھا دِل یہ، اُداسِیوں کا گھر |
پِھر اُس کے بعد مِلے تُم تو جگمگا کے رہا |
بلوچ قوم کے بچّے ہُوئے ہیں گم ایسے |
ہر ایک شخص یہاں ہائے سٹپٹا کے رہا |
بچا کے دِل کی زمِیں کو رکھا تھا میں نے رشِیدؔ |
غموں کا ابر مِرے آسماں پہ چھا کے رہا |
رشِید حسرتؔ |
معلومات