وہ مُجھ میں رہ گئی کوئی کمی ہے |
مِرا دِل ہے، نظر کی روشنی ہے |
سجی سازوں پہ میری دھڑکنوں کے |
کھنکتی، کھنکھناتی راگنی ہے |
اُسے چاہت کِسی کی مانتا ہُوں |
نہ ہو گی، پر مُجھے اُس شخص کی ہے |
بڑی مُدّت کے بعد آیا ہوں گاؤں |
وُہی سرسوں کی پِیلی سی پری ہے |
میں پگڈنڈی پہ گُم سُم چل رہا ہُوں |
کِسی نے آج پِھر آواز دی ہے |
سُنائی دی ہے وہ مانُوس آہٹ |
کہ چاپ اُس آشنا دمساز سی ہے |
گنوایا شہر جا کر خُود کو یارو |
حقِیقت اب کہِیں جا کر کُھلی ہے |
یہاں پر چاندنی بھی نِکھری نِکھری |
ہر اِک رشتے میں گویا تازگی ہے |
کہاں پر کھو کے آیا ہُوں جوانی |
کہ پِھرجِینے کی چاہت جاگ اُٹھی ہے |
جو بھر کے آنکھ میں لوٹا ہوں زردی |
کمائی عُمر بھر کی پیاس کی ہے |
ہے دِلکش چودھوِیں کی رات حسرتؔ |
ہوا ،جادُو، مدُھر سی بانسری ہے |
رشِید حسرتؔ- |
معلومات