نِیچی ذات |
بہُت کم ظرف نِیچی ذات کا ہے |
یقیں پُختہ مُجھے اِس بات کا ہے |
نہیں آدابِ محفل اُس کو لوگو |
کہوں گا میں تو جاہِل اُس کو لوگو |
ذرا بھر بھی نہِیں تہذِیب جِس کو |
فقط آتی ہے بس تکذیب جس کو |
جہاں دیکھو نُمایاں خود کو رکھے |
سو ایسے لوگ آنکھوں کے ہیں پکّے |
بہت بے شرم ہے، وہ بے حیا ہے |
سمجھ لو مستحق دُھتکار کا ہے |
ہے شیوہ چاپلُوسی، چمچہ گِیری |
ذرا دیکھو دکھاوے کی یہ مِیری |
حقِیقت جانتا ہوں کیا ہے اُس کی |
اکڑ جِس پر ہے اِک تنخا ہے اُس کی |
زمانے بُھول بیٹھےجو پُرانے |
دماغ اُس کا نہِیں رہتا ٹِھکانے |
سبق اُس کو پڑھانا لازمی ہے |
وہ کیا کُچھ ہے بتانا لازمی ہے |
امِیروں کی کرے ہے چاپلُوسی |
یقینی انت ہے اُس کا مجوسی |
کبھی قرآن کی کر دے حقیری |
کبھی رِیشِ مُبارک، ایسی تیسی |
کِسی کا حق دبا کر گھر میں لانا |
رہا شیوہ تُمہارا یہ پُرانا |
یہ مانا چار پیسے پاس ہوں گے |
مگر کب تک تُمہیں یہ راس ہوں گے |
جو اکڑے مال پر وہ کم نسل ہے |
فقط یہ چور بازاری کا پھل ہے |
بھکاری بن کے کل بھٹکو گے طے ہے |
وفا کو، پیار کو، ترسو گے طے ہے |
کلامِ حق کو ٹُھکرایا ہے تُم نے |
گنوایا آج، جو پایا ہے تُم نے |
ہمارے راستے اب سے الگ ہیں |
وہاں فٹ ہو جہاں سب تُم سے ٹھگ ہیں |
شرافت تُم کو راس آئی نہِیں ہے |
تُمہیں عزّت ذرا بھائی نہِیں ہے |
اب آگے بات نا کرنا کبھی تُم |
ہمارے واسطےمُردہ ابھی تُم |
نہ آئے باز تو انجام تُم پر |
کُھلی گی سوچ، تشنہ کام تُم پر |
بہُت کہنا تھا پر اِتنا بہُت ہے |
جِسے اِنسان سمجھا تھا وہ بُت ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات