بڑے بے شرم حاکِم ہیں، بڑی بے حِس حُکُومت ہے |
ذرا بھی کب پتہ اِن کو حیا کیا؟ کیا شرافت ہے؟ |
ہمیں تو ظُلم سہنے کے لیے بھیجا گیا شائد |
جہاں تک دیکھ سکتے ہیں غرِیبی ہے، مُصِیبت ہے |
یہ وہ بازار ہے ہر چِیز بِکتی ہے یہاں آ کر |
یہاں پر عدل بِکتا ہے کہ رقّاصہ عدالت ہے |
سُنا ہے ایک پاکستان ہے جو ایٹمی طاقت |
رہا کرتے ہیں ہم جِس دیس میں وحشت ہی وحشت ہے |
ابھی تو دال روٹی بس سے باہر ہوتی جاتی ہے |
یہاں ہر چِیز کا بُحران ہے، پِھر اُس میں شِدّت ہے |
ترقّی تو ذرا دیکھو، ملے آٹا قطاروں میں |
مگر دعویٰ مُسلسل ہے، یہ کم ظرفوں کی فِطرت ہے |
جہاں ماں باپ بچّے بیچنے پر آج آمادہ |
نہِیں معلُوم ہے یہ مُلک دوزخ ہے کہ جنّت ہے؟؟ |
بھلے مہنگائی کا طُوفان آیا ہے، سو آیا ہے |
جفا سہتے ہیں ہنس ہنس کر سِتم سہنے کی عادت ہے |
غرِیبی لے کے آئے ہو تو کیسا حق ہے جِینے کا |
تُمہیں بے وقت مرنا پڑ گیا، جینے کی قِیمت ہے |
بڑی تنقِید کرتے پِھر رہے ہو حُکمرانوں پر |
تُمہیں احساس بھی کُچھ ہے، تُمہاری کیا حقِیقت ہے؟؟ |
غرِیبوں کو مِٹانے پر ہیں کب سے مُستعِد حاکِم |
مگر کیسے ابھی تک زِندہ ہیں ہم، ہم کو حیرت ہے |
پِدر نے لا کے بچّوں کو سمندر میں ڈبو ڈالا |
امیرِ شہر کو احساس ہو تو یہ قیامت ہے |
چُرا کر لے گئے جو لوگ دولت دُوجے مُلکوں میں |
سو واپس لے کے آئیں اِن میں تھوڑی سی بھی غیرت ہے |
سِتم اِتنا روا رکھنا کہ جو برداشت کر پاؤ |
کبھی کمزور جاگے گا، ارے اِس کی بھی عِزّت ہے |
ابھی افلاس کا رقّاص محوِ رقص آنگن میں |
ہمارے دِن بھی خُوشحالی کے آئیں گے یہ حسرتؔ ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات