| کی بہاروں سے خزاں نے گفتگو تفصیل سے |
| سر گرانی ہو رہی ہے بے وجہ کے فیل سے |
| میں نے پوچھا میرے کھاتے میں کوئی اچھا عمل |
| ملگجی گٹھڑی اٹھا لایا کوئیؔ زنبیل سے |
| نوچ کر کھاتے رہے ہیں جسم میرا آج تک |
| کیا بتاؤں میرے بچّے سب کے سب ہیں چیل سے |
| جب تلک تھا دبدبے میں سب تھے تابع میں وزیر |
| سر پہ چڑھ دوڑے ہیں شہ کے اک ذرا سی ڈھیل سے |
| اپنے کھاتے میں فقط اک رو سیاہی رہ گئی |
| باز کب آئے کبھی شیطان کی تعمیل سے |
| میں اگر تعمیر میں مصروف ہوں تو اس لیئے |
| ایک دن ہوں گا مکمل آپ کی تکمیل سے |
| باپ کو بیٹے نے مارا تھا وراثت کے لیئے |
| دور سے ہم کو دکھائی دے گئے تھے نیل سے |
| ہر رکن بد چالیوں میں حد سے آگے بڑھ گیا |
| کیا سدھار آئے گا اب ایوان کی تحلیل سے |
| ہم کو حسرتؔ عشق کے ازبر نہیں تھے قاعدے |
| ورنہ اپنے چار سو چہرے کئی قندیل سے |
| رشید حسرتؔ، کوئٹہ |
| ٠٦، دسمبر ٢٠٢٥ |
| rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات