جو لفظ چِھین کے اِظہارکھینچ لیتی ہے |
ہمیں تو وقت کی رفتار کھینچ لیتی ہے |
ہر ایک بار کشِش سے میں بچ کے رہتا ہُوں |
ہر ایک بار وہ گُفتار کھینچ لیتی ہے |
ہمارے ہونٹ کبھی سچ کا بوجھ اُٹھاتے نہِیں |
ہوائے جُھوٹ جو پتوار کھینچ لیتی ہے |
ہماری ہاں کو نہِیں میں بدلتی رہتی ہے |
وہ اِک چُڑیل جو اِنکار کھینچ لیتی ہے |
چلا نصِیب کے خانے سے کھینچنے روٹی |
سو اُس کو برق کی اِک تار کھینچ لیتی ہے |
مُغنیہ ہے کوئی وہ کہ قوس مہکی ہُوئی |
بدن میں ناچتے سب تار کھینچ لیتی ہے |
کشش یہ کیسی رہی ساحِرہ کی آنکھوں کی |
پکڑ کے ڈھال جو تلوار کھینچ لیتی ہے |
بچو بچو یہی عُشّاق میں تھا شور بپا |
ہر ایک بار میں دو چار کھینچ لیتی ہے |
میں اس کے ساتھ کوئی پارک گھومنا چاہوں |
وہ اپنی بہن کو بیکار کھینچ لیتی ہے |
رشِیدؔ ہم ہیں انا کا غِلاف اوڑھے ہُوئے |
کشِش وہ زر میں ہے فنکار کھینچ لیتی ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات