| ہم اس کو دور بہت اس کی حد سے لے کے گئے |
| خلوصِ دل سے، وفا کی سند سے لے کے گئے |
| رقم نکالی کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کرے |
| وہ ساری لوٹ کے ڈاکو صمد سے لے کے گئے |
| دعائیں ماؤں کی جو ساتھ لے کے آئے تھے |
| سند یہاں سے خدا کی مدد سے لے کے گئے |
| کتاب پڑھنے کو دشواریوں کا سامنا تھا |
| جو بوڑھے لوگ گئے ساتھ عدسے لے کے گئے |
| ہؤا ہے شور کسی کو کیا گیا اِغوا |
| دراز قد کو تو کچھ پستہ قد سے لے کے گئے |
| جو مر گیا تھا اسے ہم تو قبر تک لائے |
| پھر اس کے بعد فرشتے لحد سے لے کے گئے |
| یہ خرچ اور کسی مد سے ہونے والا تھا |
| رقم جناب کسی اور مد سے لے کے گئے |
| مجھے تو جوئے کی لت بھی پڑی ہے یاروں سے |
| بڑے کی سمت وہ چھوٹے عدد سے لے کے گئے |
| سفینہ بیچ سفر میں ہی غرق کر ڈالا |
| سفر پہ وہ جو ہمیں شد و مد سے لے کے گئے |
| شعور بانٹنے کی تھی وہاں پہ چھوٹ، سو ہم |
| گِھسے ہوئے سے، خیالات رد سے لے کے گئے |
| رشیدؔ آج وہ انکار کر رہے ہیں کیوں؟ |
| رقم ادھار جو کل میرے ید سے لے کے گئے |
| رشید حسرتؔ |
| ٢٨، اکتوبر ٢٠٢٥ |
معلومات