توڑ کر دِل مِرا بے سبب، جا چُھپے وہ کہاں کیا پتہ |
کل رفِیقو جہاں میں مِری، ہو نہ ہو داستاں کیا پتہ |
کہہ رہا ہے کوئی جا رہا ہے کِدھر لوٹ آ، لوٹ آ |
ہو چلا ہُوں بھلا کِس لئے اِس قدر بد گُماں، کیا پتہ |
جِس قدر ہو سکا پیار کو اوڑھنا اور بِچھونا کِیا |
پر ہمیشہ خسارے میں تھی کِس لِیئے یہ دُکاں، کیا پتہ |
میں نے محبُوب کے در سے کب ایک لمحہ بھی غفلت رکھی |
چُھوٹا جاتا ہے ہاتھوں سے کیوں دوستو آستاں، کیا پتہ |
خُوش گُمانی میں ہُوں مَیں کہ اُس کی محبّت ہے میرے لِیے |
عین مُمکن ہے "ہاں" میں "نہِیں" اور "نہِیں" میں ہو "ہاں" کیا پتہ |
اِس لِیئے میں سفر سے گُریزاں رہا، خوف لاحق تھا یہ |
ساتھ تو چل پڑے چھوڑ جائے کوئی، کب، کہاں، کیا پتہ |
دعویٰ عقل و خِرد کا تو کرتے پِھریں پر حقِیقت ہے یہ |
جانتے ہی نہِیں سُود کیا ہے یہاں؟ کیا زیاں؟ کیا پتہ؟ |
آج حق میں تو ہے حوصلہ بھی بڑھائے ہُوئے ہے مگر |
کل عدالت لگے اور یہی اپنا بدلے بیاں، کیا پتہ |
تُم کو حسرتؔ کِسی دِن پلٹ جانا ہے یاد ہے یا نہِیں |
اور کِتنے دِنوں تک میسّر ہے یہ گُلستاں، کیا پتہ |
رشِید حسرتؔ |
معلومات