دھیان آتا ہے کہ وہ دل کے قریب آتے ہیں |
واہمے بھی تو مجھے کتنے عجیب آتے ہیں |
کاش اک روز ہمیں ساتھ بھی دیکھا جاتا |
ہم چلے جاتے ہیں پھر اپنے نصیب آتے ہیں |
ہم غریبوں کے مقدر میں نہیں درد علاج |
اور میروں کے اشاروں پہ طبیب آتے ہیں |
کر دو اعلان کہ بازار لُٹیروں سے بھرا |
لٹ کے اس دورِ گرانی میں غریب آتے ہیں |
ایسی محفل تو ہمیں خیر طلب میں ہی نہ تھی |
جانتے ہم ہیں وہاں کیسے ادیب آتے ہیں |
ہم نے سمجھا تھا کڑے وقت میں پھٹکیں گے نہیں |
دوڑے آتے ہیں سبھی دوست، حبیب آتے ہیں |
ہم نے ہمدردی جتائی تو ہوئے ہیں مجرم |
دوزخی لوگ ہیں، جو بن کے حسیب آتے ہیں |
ایک اک کر کے ہمیں چھوڑ گئے کم نسلے |
ساتھ اپنے جو ابھی تک ہیں، نجیب آتے ہیں |
اس نے ڈھائے جو ستم وہ تو رشیدؔ اپنی جگہ |
حد تو یہ ہے کہ عیادت کو رقیب آتے ہیں |
رشِید حسرتؔ |
۰۲ ستمبر ۲۰۲۴، (۱۰ بجکر ۲۰ منٹ پر مکمل ہوئی) |
معلومات