مَیں اپنے آپ میں اُلجھا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
کبھی میں کیا تھا، ابھی کیا ہُؤا ہُوں، اُس سےکہو
وُہ جس جگہ پہ مُجھے چھوڑ کر گیا تھا کبھی
اُسی مقام پہ ٹھہرا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
یہ خنجروں سے کریں وار، اُلجھ کِسی سے نہِیں
کہا تھا ماں نے یہ، سہما ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
جمود آئے مُجھے ایک عُمر بِیت گئی
کہ جیسے شِیشے میں رکھا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
عطا پہ جِس کی وہ اِتنا غُرُور کرتا ہے
اُسی خُدا کا بنایا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
یہ عاجزی کا صِلہ ہے، جو یُوں ملا ہے مُجھے
بلندیوں پہ سو آیا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
وہ گُفتگُو میں روّیے کو اپنے ٹِھیک رکھے
کہ تلخ لہجوں کا مارا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
کرے نہ اِس سے وہ تعبِیر بدنصِیبی کی
سِتارہ شب کا مَیں ٹُوٹا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
اگر وہ داد نہ دے گا تو کیا بگاڑے گا
ادب گگن پہ میں چھایا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
کوئی جو پُھولا ہؤا ہے بلا سے پھولا رہے
کِسی سے مَیں نہِیں سہما ہُؤا ہوں، اُس سے کہو
رشِید چہروں میں تحرِیر پڑھنا سِیکھی ہے
کہ تہہ میں بات کی پہنچا ہُؤا ہُوں، اُس سے کہو
رشِید حسرتؔ

0
50