اِس، اُس کے لِیئے، اب، نہ کِسی تب کے لِیئے ہے |
ہے دِل میں مِرے پیار جو وہ سب کے لِیئے ہے |
اِک عُمر اِسی پیاس کی شِدّت میں گُزاری |
یہ آنکھ کا پیمانہ مِرے لب کے لِیئے ہے |
یہ چہرہ تِرا دِن کے اُجالے کے لِیئے ہے |
اور زُلف گھنیری ہے، سو وہ شب کے لِیئے ہے |
میں کِتنا پریشان، مسائل میں گِھرا تھا |
تُم نے جو دِیا حل وہ بہُت اب کے لِیئے ہے |
ہے مال دُعا گویا، جو بدلے میں تُمہیں دُوں |
جو کام کرے یا نہ کرے سب کے لِیئے ہے |
تعمِیل کرو گے تو بہُت فائدہ ہو گا |
یہ میری نصِیحت تو تُمہیں ڈھب کے لیئے ہے |
تسکِین ملی ہم کو سبب جِس کے رشِید آج |
صُورت کے لِیے، وہ تو فقط چھب کے لیئے ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات