تو جو بیٹھا ہے یہاں کون وہاں بیٹھا ہے
ہے حقیقت میں وہی تو، کہ گماں بیٹھا ہے
سر چھپانے کو مجھے سایہ میسّر نہ ہؤا
تیرے پہلو میں مگر ایک جہاں بیٹھا ہے
ہر جگہ اپنی ادا کاری کے جوہر نہ دکھا
اک ذرا یہ بھی رہے دھیان کہاں بیٹھا ہے
سب تری جادو نگاہی کا ہنر دیکھیں گے
کوئی بیٹھا ہے یہاں، کوئی وہاں بیٹھا ہے
کیوں اٹھاتا ہے انہیں، خوفِ خدا ہے کہ نہیں
بیٹھا رہنے دے ابھی، جو بھی جہاں بیٹھا ہے
دیکھ مضبوطی میں معمار کا دعویٰ تھا غلط
ایک جھٹکے ہی میں تو سارا مکاں بیٹھا ہے
تُل کے آیا تھا مرا نام مٹانے کے لیئے
کر کے دشمن مرا گم اپنا نشاں بیٹھا ہے
اپنی تقدیر میں تو ٹوٹا ستارا بھی نہیں
بیچنے کو جو یہاں کاہکشاں بیٹھا ہے
آگ وہ دل میں جفاؤں نے لگائی ہے رشیدؔ
جا کے صدیوں میں کہیں آج دھواں بیٹھا ہے
رشید حسرتؔ
۱۵ جنوری ۲۰۲۵ صبح ۰۸ بج ۲۰ پر غزل مکمل ہوئی

0
8