| ہے قبا کیسی ادھڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| زندگانی ہے کہ جھڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| ایسا کچھ بھی تو کیا تھا نہ بہو بیٹی نے |
| بے سبب ساس جھگڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| صدقے واری بھی کئی بار گئی ہے بیگم |
| ضد پہ آ جائے تو لڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| یہ جو رہتی ہے تو آباد وفا کے دم سے |
| دنیا اجڑی تو اجڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| بے حسی چہرے کو بے رنگ بناتی ہے ضرور |
| گرد احساس پہ پڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| ہم اسے اپنی شرافت سے، شرافت سے ملیں |
| اور دنیا کہ اکڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| خون انسان کا توقیر گنوا بیٹھا ہے |
| انسیت خاک میں گڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| ایک لڑکی کہ جو کانٹوں سے بچائے دامن |
| پر چنریا ہے کہ اڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| بات کرتے ہوئے تو اس کو کبھی دیکھ رشیدؔ |
| جو رتن لفظوں کے جڑتی ہی چلی جاتی ہے |
| رشید حسرتؔ |
| ٠٥، نومبر ٢٠٢٥ |
معلومات