کہِیں میرا سراپا کھو گیا ہے |
نہِیں لوٹا وہاں کو جو گیا ہے |
پِنگھوڑے میں جِسے دیکھا تھا تُو نے |
تِرے قد کے برابر ہو گیا ہے |
مَیں جِس کے واسطے چُنتا تھا کلیاں |
مِری راہوں میں کانٹے بو گیا ہے |
نہِیں مانے گا عرضی جانتا ہُوں |
کہ دِل اُس کو منانے تو گیا ہے |
الگ جب سے ہُؤا ہے کہکشاں سے |
مُقدّر کا سِتارہ سو گیا ہے |
کِیے ہیں اشک مَیں نے ضبط لیکِن |
طلاطُم پِھر بھی آنکھیں دھو گیا ہے |
رہا جِیون میں حسرتؔ آنا جانا |
یہ آیا زِیست میں تو وو گیا ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات