کہِیں میرا سراپا کھو گیا ہے
نہِیں لوٹا وہاں کو جو گیا ہے
پِنگھوڑے میں جِسے دیکھا تھا تُو نے
تِرے قد کے برابر ہو گیا ہے
مَیں جِس کے واسطے چُنتا تھا کلیاں
مِری راہوں میں کانٹے بو گیا ہے
نہِیں مانے گا عرضی جانتا ہُوں
کہ دِل اُس کو منانے تو گیا ہے
الگ جب سے ہُؤا ہے کہکشاں سے
مُقدّر کا سِتارہ سو گیا ہے
کِیے ہیں اشک مَیں نے ضبط لیکِن
طلاطُم پِھر بھی آنکھیں دھو گیا ہے
رہا جِیون میں حسرتؔ آنا جانا
یہ آیا زِیست میں تو وو گیا ہے
رشِید حسرتؔ

0
27