جانِ جاں کوئی نہ ہو، جانِ جہاں کوئی نہ ہو |
آہ سِینے میں کوئی، لب پر فُغاں کوئی نہ ہو |
آؤ ڈُھونڈیں ہم محبّت، آؤ ڈُھونڈیں آدمی |
خاک میں لِتھڑا نہِیں ہو، خُونچکاں کوئی نہ ہو |
کون سُنتا ہے تُمہیں اے شاعرِ ناداں، کہ جب |
کُچھ سلِیقہ ہی نہ ہو، طرزِ بیاں کوئی نہ ہو |
ساتھ میرے چل پڑے ہو، فرض کرتے ہیں، اگر |
راہ میں گُلشن نہ ہو، اور گُلستاں کوئی نہ ہو؟؟ |
ہم بھٹکتے پِھر رہے ہوں راستے میں اور، کل |
کوئی مرقد، خانقاہ و آستاں کوئی نہ ہو |
آئنے ٹُوٹے ہُوئے ہیں اور شکستہ صورتیں |
اے مُصوّر جوڑ اِن کو یُوں، نِشاں کوئی نہ ہو |
اُس نے یارو پاس رکھے ہیں امانت راز کُچھ |
ڈر لگا ہے بے خیالی میں عیاں کوئی نہ ہو |
ہم نے مانا دِل نے پالا تھا کوئی اِک پریم روگ |
وہ جوانی کیا کہ جِس کی داستاں کوئی نہ ہو |
ہر طرف تابانیاں ہیں، ہر طرف اِک روشنی |
ہم جہاں پہنچے وہ حسرتؔ، کہکشاں کوئی نہ ہو |
رشِید حسرتؔ |
معلومات