جِسم تھا نُور اِسے ہم نے ہی پہنائی رات |
کھا گئی دِن کے اُجالوں کو یہاں چھائی رات |
شب کے دامن میں فقط خواب ہے محرُومی ہے |
ہم کو مفہُوم یہ سمجھانے چلی آئی رات |
ہم تو خُود اپنی ہتھیلی پہ جلا لائے چراغ |
پِھر جو اشکوں کے سِتاروں سے نہ سج پائی رات |
دِن ہمیں شب کے اندھیرے میں ملا، کیا کرتے |
دن کو کُچھ پُھول دِیئے شب میں مگر ڈھائی رات |
ہم نے دو دِن کو محبّت کا اُجالا دیکھا |
نفرتوں کی جو چلی باد تو پھر چھائی رات |
اِمتحاں اور طرح کے ہی لِیئے شب نے مِرے |
کُچھ نہ کر پائے تو بس دِن میں چُرا لائی رات |
سُن لے فریاد مِری کوئی، ضرُوری تو نہِیں |
آہ و حسرتؔ کے سبب آج ہے پُروائی رات |
رشِید حسرتؔ |
معلومات