در پہ آئے تھے ترے، جان مگر لوٹ گئے |
کوئی ہونا ہی تھا نقصان، مگر لوٹ گئے |
ہم جو آئے تھے تری ایک جھلک پانے کو |
تو بھلے کرتا بھی احسان، مگر لوٹ گئے |
ہم جو چوری کو گئے، گھر وہ کسی شاہ کا تھا |
لُوٹ لینا بھی تھا آسان، مگر لوٹ گئے |
ہم نے حملہ تو کیا، وہ تھا نہتّا، تنہا |
کرتا رہتا تھا جو اپمان، مگر لوٹ گئے |
اسکی عزت تو گئی، مسئلہ یہ بعد کا تھا |
شوق سے رکھتا بھی بہتان، مگر لوٹ گئے |
چور تھے سب ہی مگر، ایک مرا حکم عدول |
باندھ کے رکھا تھا سامان، مگر لوٹ گئے |
جانے کیا سوجھی کہ ہم شام کو بازار میں تھے |
سر اٹھاتے رہے ارمان، مگر لوٹ گئے |
ہم سے بیٹی نے کہا تھا کہ کھلونے لانا |
خوب وہ رکھتی بھی ہے مان، مگر لوٹ گئے |
اُس نے حسرتؔ سے ہمیں پھر سے بلا بھیجا ہے |
توڑ سکتے بھی تھے فرمان، مگر لوٹ گئے |
رشید حسرتؔ |
۳۱ اگست ۲۰۲۴، (شب ۱۲ بج کر ۲۰ منٹ پر) |
معلومات