پہلے تو دردِ محبّت کے حوالے کرنا
پِھر مِری یاد میں تُم بیٹھ کے نالے کرنا
تُم نے سِیکھا یہ ہُنر کِس سے ہمیں بتلاؤ
تِیرگی زُلف سے، پِھر رُخ سے اُجالے کرنا
ہم نے سمجھا تھا کہ ہے عِشق سفر پُھولوں کا
پر شُمار آپ ابھی پاؤں کے چھالے کرنا
بُھول سکتا ہے بھلا کوئی کہاں وہ صدمے
آئے دِن دِل پہ سِتم ہائے نِرالے کرنا
اچّھے اِنساں کی یہاں قدر نہِیں ہے کوئی
آستِینوں میں بھلے سانپ ہی پالے کرنا
لوٹ آئیں گے مگر شرط فقط اِتنی ہے
اِہتمام اپنے لِیے رُوئی کے گالے کرنا
کیسی حسرتؔ  ہے کہ ہم دِل کو سمیٹے ہی رہے
ہم نے سِیکھا نہ کبھی قلب کو جالے کرنا
رشِید حسرتؔ 

0
41