ہیں شعر تِرے شُستہ لب و لہجہ حسِیں ہے |
پر کیا ہے کہ یہ مُردہ پرستوں کی زمِیں ہے |
اے سہمی کسک تُو نے مِرا ساتھ دیا ہے |
ہمدرد مِری تُو ہے، تُو ہی دِل کی مکِیں ہے |
جو چرب زُباں اُس کو پذِیرائی مِلی ہے |
اور اصل جو فنکار ہے وہ گوشہ نشِیں ہے |
محسُوس کِیا اُس کے رویّے میں تغیُّر |
تب سے ہے فلک پاؤں میں، اور سر پہ زمِیں ہے |
تھی کھوج مُجھے تُم سا کوئی ہو گا میسّر |
واللہ نہِیں کوئی، نہِیں کوئی نہِیں ہے |
جِس روز سے وہ تابعِ فرمان ہُؤا ہے |
لگتا ہے پری زاد کوئی زیرِ نگِیں ہے |
حسرتؔ ہے اگر پیاس تو بھاشن پہ توجہ |
تُو اور کہِیں، دھیان تِرا اور کہِیں ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات