ارمان کئی سینے میں دفنائے ہوئے ہم |
بستی میں تِری لوٹ کے پھر آئے ہوئے ہم |
دامن میں کوئی تم نے فسُوں باندھ رکھا ہے |
مہکے ہیں، کئی دن کے تھے مرجھائے ہوئے ہم |
ہر بات بُھلا دی ہے مگر ایک تِری یاد |
پھرتے ہیں اسے سینے سے چمٹائے ہوئے ہم |
منہ زور کوئی اسپ محبت کا جنُوں ہے |
ڈوری سی اسے پیار کی پہنائے ہوئے ہم |
بھر پور، کہیں زہر بھرا جام حیاتی |
تم لُوٹنے آئے ہو تو اُکتائے ہوئے ہم |
وحشت ہے کوئی شہر میں بے یار و مددگار؟ |
لبّیک کہیں بانہوں کو پھیلائے ہوئے ہم |
کل یہ بھی نہیں ہوگی رشیدؔ آج اگر ہے |
دو چار گھڑی سانس پہ اِترائے ہوئے ہم |
رشِید حسرتؔ |
معلومات