مَیں نہِیں واقفِ آداب، چلو مان لیا
جُھوٹے ہوتے ہیں مِرے خواب، چلو مان لیا
مُضمحل ہو کے وہاں بیٹھ گیا ایک طرف
مُنتشِر ہیں مِرے اعصاب، چلو مان لیا
جب سے بِچھڑا ہے اُسے چین نہِیں میرے بِنا
سُرمئی آنکھوں میں ہے آب، چلو مان لیا
سب نقوش اسکی حویلی کے نمایاں ہیں مگر
دُھند میں ڈُوبی ہے محراب، چلو مان لیا
اُس کی تحرِیر نے پا لی ہے پذِیرائی بہُت
مِیں لگاتا رہا اعراب، چلو مان لیا
میرا دُشمن ہے مِری کھوج میں سو طے ہے میاں
معرکہ ہونا ہے خُوں ناب، چلو مان لیا
میرے کھلیان میں ہے فصل محبت کی ابھی
اور ہونا ہے مگر لاب، چلو مان لیا
اُس نے چھیڑا ہے کوئی گِیت وفا کا اور مَیں
تھامے بیٹھا ہُؤا مِضراب، چلو مان لیا
اُس کی آنکھوں میں کوئی جادُو اثر ہے حسرتؔ
دیکھ لینے کی نہِیں تاب، چلو مان لیا
رشِید حسرتؔ

0
23