ندی سمٹی کنارے آ گرے ہیں
کنائے، استعارے آ گرے ہیں
وہ لہریں، شوخیاں مستی، تلاطم
مرے قدموں میں سارے آ گرے ہیں
فلک پر جو کبھی رہتے فروزاں
زمیں پر وہ ستارے آ گرے ہیں
اُڑان اب تک نہ بھر پائے پرندے
قفس میں غم کے مارے آ گرے ہیں
مرے دل سے لہو کے پُھوٹ نکلے
تِرے پاؤں میں دھارے آ گرے ہیں
مری کُٹیا کی چھت پر کیا بتاؤں؟
جہاں بھر کے خسارے آ گرے ہیں
غضب کی لاڑکانہ میں تھی گرمی
خُراساں میں بچارے آ گرے ہیں
اُنہیں اپنا بنانا تم پہ واجب
کہ جو در پر تمہارے آ گرے ہیں
ہوئے ہیں دل کے ٹکڑے ایسے حسرتؔ
ہمارے گھر میں پارے آ گرے ہیں
رشید حسرتؔ

0
84