| رکھیں گے دل کے قریں تم کو، دور مت جاؤ |
| سہارا کون بنے گا حضور، مت جاؤ |
| تمہیں تو اور کہیں بھی سکوں ملے گا مگر |
| اجاڑ دو گے وفا کا سرور، مت جاؤ |
| سفر کا سلسلہ جاری رہے مشقت سے |
| ملے گی ہم کو بھی منزل ضرور، مت جاؤ |
| سبب تو ہو گا تمہارے برا منانے کا |
| ہمیں بتاؤ ہمارا قصور، مت جاؤ |
| پھر آج جلوۂِ یزداں کی مانگ ہے لوگو |
| صدا سنے گا یہاں سے بھی، طورؔ مت جاؤ |
| یہاں کے لوگ حسینوں سے بیر رکھتے ہیں |
| تمہارے رخ سے جھلکتا ہے نور، مت جاؤ |
| میں کہہ رہا تھا کسی دلپذیر ہستی سے |
| تمہیں بہشت ہو، جنّت کی حُور مت جاؤ |
| سفر میں کتنے مسائل کا سامنا ہو گا |
| کروں گا کیسے اکیلے عبور، مت جاؤ |
| بدن پہ زخم ہیں جتنے وہ ڈھانپ کر رکھ لو |
| اب اس کے سامنے تو چُور چُور مت جاؤ |
| بلائیں راستہ روکے کھڑی ملیں گی تمہیں |
| نہیں ہے وقت کا تم کو شعور، مت جاؤ |
| چلے ہو روٹھ کے حسرتؔ کہاں، کہ تم سے ہے |
| محبّتوں کا، وفا کا غرور، مت جاؤ |
| رشید حسرتؔ |
| ٢٣، اکتوبر ٢٠٢٥ |
معلومات