| تمام خوابوں کی تعبیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں |
| تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں |
| سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے |
| مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ |
| نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار |
| تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا |
| جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر |
| مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں |
| مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ |
| کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی |
| محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا |
| بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ |
| رشید حسرت، کوئٹہ |
| ٠٧، دسمبر ٢٠٢٥ |
| rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات