فقیر جان نہ اِن کو، وزیر بیٹھے ہیں |
یہ راہداری پہ جو لِیر لِیر بیٹھے ہیں |
کُھلا یہ بھید کہ اب بُھوک مار ڈالے گی |
کہ اِقتدار میں مُردہ ضمِیر بیٹھے ہیں |
وہ کر رہا تھا کِسی کھیل میں اداکاری |
ہمی تھے سادہ کہ دِل اپنا چِیر بیٹھے ہیں |
مُرید پاؤں دبانے کو سب ہوئے حاضِر |
حسِین چہروں کے پہلُو میں پِیر بیٹھے ہیں |
پرائے دیس میں لوگوں کے ٹھاٹھ باٹھ سُنو |
سُنہرے جال میں پنچھی اسِیر بیٹھے ہیں |
پگھار میری بمُشکل ہزار سولہ ہے |
قطار میں تو مسائِل کثِیر بیٹھے ہیں |
ہڑپ کرے گی یہ مہنگائی ایک دِن سب کو |
غرِیب کیا، کہ جو زد پر امِیر بیٹھے ہیں |
شِکایتوں کے جو انبار ساتھ رکھتے تھے |
گنوا نتِیجے میں وہ اپنی ہِیر بیٹھے ہیں |
بُجھے بُجھے ہُوئے چہرے جو چار سُو ہیں رشِیدؔ |
گِرانیوں کے، لِیے دِل میں تِیر بیٹھے ہیں |
رشِید حسرتؔ |
معلومات