نجانے مُجھ سے کیا پُوچھا گیا تھا |
مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا |
مُحیط اِک عُمر پر ہے فاصلہ وہ |
مِری جاں بِیچ جو رکھا گیا تھا |
سُنو سرپنچ کا یہ فیصلہ بھی |
وہ مُجرم ہے جِسے لُوٹا گیا تھا |
بِٹھایا سر پہ لوگوں نے مُجھے بھی |
لِباسِ فاخِرہ پہنا گیا تھا |
اُسے رُخ یُوں بدلتے دیکھ کر میں |
چُھپا جو مُدعا تھا پا گیا تھا |
نہیں جانا تھا مُجھ کو اُس نگر کو |
کسی کا حُکم آیا تھا، گیا تھا |
فقط کُچھ دِن گُزارے سُکھ میں مَیں نے |
پِھر اُس کے بعد بادل چھا گیا تھا |
نہِیں وہ شخص تو اب جانا کیسا |
جہاں مَیں مدّتوں آیا گیا تھا |
رشید اُس نے ہی سُولی پر چڑھایا |
جو بچّہ غم کا اِک پالا گیا تھا |
رشِید حسرتؔ |
معلومات