وہ ہم سے بد گُمان رہے، بد گُمان ہم |
سو کیا گئے کہ چھوڑ کے نِکلے مکان ہم |
فاقے پڑے تو پاؤں تلے (تھی زمِیں کہاں) |
ایسے کہاں کے عِشق کے تھے آسمان ہم |
اب یہ کُھلا کہ جِنسِ محبّت تمام شُد |
پچھتائے اپنے دِل کی بڑھا کر دُکان ہم |
کرتا ہے پہلا وار جو وہ منہ کے بل گِرے |
رکھتے نہیں ہیں کھینچ کبھی بھی کمان ہم |
ہم چُپ رہے جو دورِ گِرانی میں اِس طرح |
اِک دِن ہوا میں سانس پہ دیں گے لگان ہم |
اپنی خُوشی جو بِھینٹ چڑھائی ہے ہم نے آج |
جِیون کِسی بھگت کو کریں کیوں نہ دان ہم |
پہلی اُڑان کی تو تھکن تک گئی نہِیں |
بھرنے لگے ہیں عِشق کی پِھر سے اُڑان ہم |
اِتنا یقِیں تو ہے کہ وہ لوٹے گا ایک دِن |
بیٹھیں یہِیں کہِیں پہ لگا کر گِدان ہم |
مانا کہ دیکھنے کو تو ہم دھان پان ہیں |
مسلک ہے عِشق، عشق کی ہیں آن بان ہم |
دیکھو تو چار سُو ہے حسِینوں کا اِک ہُجُوم |
جاتی رہی حیات، ہُوئے رفتگان ہم |
باندھا ہے عہد، عہد کا ہے پاس بھی رشِید |
کُنبہ لُٹا کے رکھتے ہیں اپنی زُبان ہم |
رشِید حسرتؔ |
معلومات