ہؤا کچھ نہیں، کِیا کچھ نہیں، مری زندگی ہی اجاڑ تھی |
جو قریں رہا، وہی جل گیا، کہ یہ آتشیں کوئی باڑ تھی |
مجھے بے سبب یہ گلہ رہا، کوئی میرے شعر سراہتا |
یہ کبھی سمجھ میں نہ آ سکی، مری شاعری بھی تو ناڑ تھی |
مرے سر پہ سایہ رہا نہیں، مجھےتلخیوں نے جلا دیا |
کبھی پیش آئیں رکاوٹیں، مجھے ماں کی پیاری سی آڑ تھی |
مجھے اس گلی کا جنون تھا، وہ جنون میرا سکون تھا |
وہ جو اک ذرا سی تھی جھونپڑی، وہی جھونپڑی مرا ماڑ تھی |
جو چمٹ کے ذہن سے رہ گئیں، نہ بھلا سکا ہوں میں آج تک |
وہ تری کمال کی شوخیاں، کبھی جھانک تھی، کبھی تاڑ تھی |
مری روح میں بھری روشنی، مجھے چاند جیسا بنا گئی |
مجھے آشنائی کے گُر دیئے، تری ذات ہی مِرا جھاڑ تھی |
یہ رشیدؔ بھاگ کی بات ہے، یہ ملا، وہ مجھ سے بچھڑ گیا |
کبھی راحتوں کا بنی سبب، کبھی زیست میرے کو چاڑ تھی |
رشید حسرتؔ |
مورخہ ۲۷ مارچ ۲۰۲۵ کو یہ غزل ۰۷ بج کر ۵۷ منٹ پر مکمل کی گئی۔ |
معلومات