انجم کی فسوں کاری ہے، مہتاب کا جادو
بانہوں میں بھرے ہم کو حسیں خواب کا جادو
اک عکسِ پری زاد دریچوں میں دھرا ہے
ہے نقش و نگاراں سجے محراب کا جادو
خوشبو کی زباں پھولوں نے آزاد رکھی ہے
برفیلا سماں باندھے رواں آب کا جادو
مسحور کیے رکھتا، گھٹا رنگ، دھنک رو
اِس پار تھا اُس پار کے گرداب کا جادو
پھر قلب کو مطلوب ہنر بخیہ گری کا
دکھلائے اثر اب دلِ خوں ناب کا جادو
اک سادہ "عبارت" تھا "مری ذات" حوالہ
اب رقص کناں مجھ میں ہے اعراب کا جادو
یہ کوزہ گری خاک نشینوں کا ہنر ہے
حسرتؔ ہے الگ ایک نئے باب کا جادو
رشِید حسرتؔ
۱۵ مئی ۲۰۲۵

0
3