تختِ دل اس نے چنا پھر راجدھانی کے لیئے |
کاہے کی کوزہ گری ہے دارِ فانی کے لیئے |
طشتری میں خواب اس نے رکھ کے بھیجے ہیں مجھے |
باب وا ہوتے گئے ہیں یادہانی کے لیئے |
پھر نجوم و کہکشاں اپنی گزر گاہوں میں ہے |
پردۂِ سیمیں، عروجِ ارغوانی کے لیئے |
میں نے تو در ماندگی کا سارا قصہ کہہ دیا |
اس نے چھوڑا فیصلہ سردارِ ثانی کے لیئے |
سب یذیدوں نے یہاں مل کر کیا ہے فیصلہ |
کربلہ ترسے گا پھر اک بوند پانی کے لیئے |
آگ خیموں کو دکھائی، حکمراں نے کی عطا |
جس کو دستارِ فضیلت، گل فشانی کے لیئے |
اہتمامِ مے کشی میں وہ کہ کہنہ مشق تھا |
تجربہ تھا ماہِ نو کا اصفہانی کے لیئے |
پھر سماعت میں پرانی یاد کی پائل بجی |
شہ مریدیؔ درد جا گا ایک ہانیؔ کے لیئے |
چھید کشتی میں وہی ڈالیں گے حسرتؔ کیا پتہ |
جن کو اجرت پر رکھا تھا بادبانی کے لیئے |
رشید حسرتؔ |
مورخہ یکم مئی ۲۰۲۵، گیارہ بج کر ۱۸ منٹ پر یہ غزل مکمل کی گئی۔ |
معلومات