خُود کو آرام سے تُو گھر پر رکھ
اور پَگ عورتوں کے سر پر رکھ
دوستوں نے تو مِہربانیاں کِیں
داغ تُو بھی دِل و جِگر پر رکھ
میں نے قرضہ دیا ہے، جُرم کِیا؟
اور اب تُو اگر مگر پر رکھ
تُو وڈیرے کے گھر کا آدمی ہے
فتح اپنی کو میرے ڈر پر رکھ
منزلیں خُود سِمٹتی جائیں گی
بس توجہ فقط سفر پر رکھ
رِزق اللہ کی طرف سے ہے
پِھر بھروسہ ہے جو ہُنر پر رکھ
کیوں خطا وہ تِری مُعاف کرے
اب تو دستار اُس کے در پر رکھ
سب کے حِصّے میں رکھ تو رات کا دُکھ
اور نظریں مگر سحَر پر رکھ
شاعری کو مِلا دوام آخِر
کان حسرت اِسی خبر پر رکھ
رشِید حسرتؔ

54