تُمہارے نام پہ دِل دے دیا تھا، جاں بھی دی
بھٹکتے پِھرتے تھے صحراؤں میں اذاں بھی دی
متاعِ زِیست تلک اُس کے نام کر ڈالی
دِیا جو نوحہ اُسے ساتھ نوحہ خواں بھی دی
ہمارے پاس تو باقی نہ رہ سکِیں یادیں
چمن دیا جو اُسے بُوئے گُلستاں بھی دی
بدل کے بیٹھے ہیں تہذِیب کھوکھلی سے ہم
شہِید بیچ دِیئے، اپنی داستاں بھی دی
ہم اہلِ ذوق ہیں ہم پر کرم خُدا کا ہے
شعُور دے کے ہمیں قُوّتِ بیاں بھی دی
ہمیں اندھیرے دِیئے ہیں خُدا نے اُس کو مگر
کمالِ حُسن دیا، صُبحِ ضو فِشاں بھی دی
نہِیں کِیا تھا جو پہلے، سو ابکے ہم نے کِیا
سِتارے تُم کو دِیئے، اپنی کہکشاں بھی دی
امیرِ شہر سے ڈرنا ہے کیا کہ حق نے ہمیں
دھڑکتا دِل بھی دِیا، بولتی زُباں بھی دی
تُمہارے وار کا حسرتؔ ہے مُنتظِر کب کا
حُضُور ہاتھ میں ترکش دِیا، کماں بھی دی
رشید حسرتؔ

19