بِچھڑ جانا پڑا ہم کو لِکھے جو آسمانی تھے |
جُدا کر کے ہمیں دیکھا مُقدّر پانی پانی تھے |
تراشِیدہ صنم کُچھ دِل کے مندر میں چُھپائے ہیں |
کہِیں پر کابُلی تھے بُت کہِیں پر اصفہانی تھے |
ہوا بدلا نہِیں کرتی کہ جیسے تُم نے رُخ بدلا |
پرائے ہو گئے؟ کل تک تُمہاری زِندگانی تھے |
نجانے کِس طرح کی خُوش گُمانی ہم کو لاحق تھی |
ہمیں جِن سے اُمِیدیں، لوگ وہ دُنیا کے فانی تھے |
سبھی نے اپنے حِصّے کی کوئی آفت اُٹھائی ہے |
بہُت سے آشنا چہرے زمِینی، کُچھ زمانی تھے |
تسلُّط ایک مُورت کا تھا دِل کی راجدھانی پر |
گھنیری نرم زُلفیں جس کی، لب بھی ارغوانی تھے |
وہ کیا چہرے تھے ماضی کے دُھندُلکوں سے اُبھر آئے |
ہم اُن کا جھوٹا قِصّہ، وہ مگر سچّی کہانی تھے |
لِکھا تھا غین چہرے پر، سو غُربت کِس کو بھائی ہے؟ |
یقِیں کرتا کوئی کیا ہم سراپا بد گُمانی تھے |
رشِید اپنی محبّت کا لہُو تُھوکا کِیے لیکِن |
کِسی کے ہم زُباں ٹھہرے کسی کی بے زُبانی تھے |
رشید حسرت |
معلومات