| خدا کا شکر کہ وہ مجھ کو دستیاب نہیں |
| اترتا گھر میں مرے ورنہ آفتاب نہیں |
| میں جس کے ساتھ کی سولی پہ جھولتا ہی رہا |
| وہ ماں کا حکم سہی، میرا انتخاب نہیں |
| چُنے ہیں پھول، خزاؤں کی زرد رت میں بھی |
| وفائیں اور جتانے کی ہم میں تاب نہیں |
| زبانیں منہ سے ہیں باہر شدید حدّت سے |
| چہار سو ہے سرابوں کا راج، آب نہیں |
| جو روند روند کے لوگوں کو راستہ پائے |
| وہ ہو گا کچھ بھی مگر شخص کامیاب نہیں |
| خیال و خواب کی تاریکیوں میں گم ہے کہیں |
| بہت دنوں سے میسّر جو ماہتاب نہیں |
| سمیٹ لے گا ہمیں وقت اپنی بانہوں میں |
| ہمارے صحن میں اترے سہانے خواب نہیں |
| نجانے کون گھڑی ہم پہ وجد طاری ہو |
| دعا سمیٹو، کرو ہم سے اجتناب نہیں |
| رشیدؔ وقت کے ماتھے پہ حرف کندہ ہیں |
| کہیں بھی درج محبت کا انتساب نہیں |
| رشید حسرتؔ |
| ٢٦، اکتوبر ٢٠٢٥ |
معلومات