اُس کو لایا جا سکتا ہے
تو پِھر سایہ جا سکتا ہے
وِیرانے کو گھر میں لا کر
دشت بسایا جا سکتا ہے
نِیند چُرائی جا سکتی ہے
درد جگایا جا سکتا ہے
بُوڑھا ہُوں پر عِشق فسانہ
لب پر لایا جا سکتا ہے
اللہ کی مخلُوق سُکھی ہو
پیڑ لگایا جا سکتا ہے
راہ بدلنا، لازِم ہے کیا؟
ساتھ بھی جایا جا سکتا ہے
آج غُرُور ہے سرمائے پر
کل یہ مایہ جا سکتا ہے
آنکھیں کھول کے چلنا ہو گا
دھوکہ کھایا جا سکتا ہے۔
مِیٹھے بول کی آڑ میں حسرتؔ
زہر پلایا جا سکتا ہے
رشِید حسرتؔ

1
49
شکریہ احباب کا

0