| میں جس کی چاہ میں جاں سے گزرنے والا تھا |
| کھلا کہ شخص وہ الزام دھرنے والا تھا |
| ترے فراق میں جو جو کثافتیں جھیلیںں |
| وہ سارا زہر بدن میں اترنے والا تھا |
| اس ایک شخص پہ سب انگلیاں اٹھانے لگے |
| میں جس کے ہاتھ پہ بیعت ہی کرنے والا تھا |
| رفیق مجھ سے جو کچھ دن کھچا کھچا سا رہا |
| کھلا کہ اس کے کوئی کان بھرنے والا تھا |
| نظر پڑی ہے تو پھر آئیں بائیں شائیں کی |
| وہ زہر آب سے چھاگل کو بھرنے والا تھا |
| معاہدے کی ضروری تھی اس سے دستاویز |
| جو عہد کر کے زباں سے مکرنے والا تھا |
| بھلا کیا کہ بُرا میں نے کر دیا آزاد |
| پرند قید میں تھا اور مرنے والا تھا |
| عوام بھوک سے بدحال، شاہ مستی میں |
| کہاں تھا خوف اسے، کس سے ڈرنے والا تھا؟؟ |
| رشید پایا بھی کیا چار دن حکومت میں |
| یہ تخت و تاج تو آخر بکھرنے والا تھا |
| رشید حسرتؔ، کوئٹہ |
| ١٨، نومبر ٢٠٢٥ |
| email: Rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات