تُمہارا عزم ہمیں وحشتوں میں رکھنا ہے |
یہ سوچتے ہیں تُمہیں کِن صفوں میں رکھنا ہے |
تُمہاری نِیند ہمارے ہی ساتھ جائے گی |
خیال اپنا تُمہیں رتجگوں میں رکھنا ہے |
مزہ جو پایا تھا ہم نے ہری رُتوں میں کبھی |
اُسی مزاج کا پِیلی رُتوں میں رکھنا ہے |
رکھا ہے جیسے تُمہیں صُبح کی تمازت میں |
ڈھلی جو شام تو پِھر ملگجوں میں رکھنا ہے |
جو ماپنا ہے ہمیں قُربتوں کو قُربت سے |
تو فاصلوں کو اُدھر فاصلوں میں رکھنا ہے |
حرام نفع کی ہم کو پڑی ہے لت ایسی |
سو چار، پانچ ہمیں درجنوں میں رکھنا ہے |
تُم اب کے آؤ تو جانے نہ دیں گے مڑ کے تمہیں |
مہک سی تُم کو چُرا کر گُلوں میں رکھنا ہے |
ہمیں یقیں ہے کہ پہلے یقیں دِلا کے ہمیں |
پِھر اُس کے بعد فقط واہموں میں رکھنا ہے |
رشِید سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا تُم |
کمالِ ربط کوئی ضابطوں میں رکھنا ہے |
رشِید حسرتؔ |
معلومات