مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھا |
بتا کر ہی تُمہارے شہر آنا چاہِیے تھا |
مِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تُمہاری |
تُمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہِیے تھا |
مِرے بچّے گئے ہیں کل سے پِکنِک کا بتا کر |
نہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہِیے تھا |
نجانے کِس لِیئے تھا رات سنّاٹوں کا پہرہ |
مُجھے محفل میں تھوڑا گُنگُنانا چاہِیے تھا |
کما کر میں جواں بچّوں کو پالُوں، بُوڑھا ہو کر |
یہ بے حِس ہیں اِنہیں ہر حال (کھانا) چاہِیے تھا |
ہُوئی ہوگی مِری تاخِیر سے لوگوں کو زحمت |
مُعافی دو مُجھے بر وقت آنا چاہِیے تھا |
بہُت ہی مُختصر تھا ساتھ اپنا اور تُمہارا |
مگر تُم کو بُھلانے کو زمانہ چاہِیے تھا |
کُھلی جو بات لوگوں نے اُچھالا کھول کے جی |
اُنہیں تو گُفتگُو کو اِک فسانہ چاہِیے تھا |
کِسی دِل کا کُھلا در دیکھ کر ہم آن بیٹھے |
ہمیں تو سر چُھپانے کو ٹِھکانہ چاہِیے تھا |
لگایا رتجگوں کا جِس نے اِن آنکھوں میں کاجل |
سُکوں ایسے سِتم گر کا چُرانا چاہِیے تھا |
رشِید اب تک گُناہوں میں گزاری زندگانی |
تُمہیں تھوڑی سی نیکی بھی کمانا چاہِیے تھا |
رشِید حسرتؔ |
معلومات