غیر موجود کوئی تھا تو مرے پاس ابھی |
چھوڑے جاتا ہے جو رخسار پہ انفاس ابھی |
دل پذیری تری پازیب کی ہے رقص کناں |
اور سارنگی مجھے ہجر کی ہے راس ابھی |
میری خلعت کو ترا بخشا ہؤا ہے اعزاز |
ناچتی رہتی ترے قرب کی ہے باس ابھی |
شاہ زادوں نے مرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے |
سر فرازی کا مجھے ہوتا ہے احساس ابھی |
حل طلب کوئی معمّہ ہے محبت کا قدیم |
دل زدوں کا چلو بلواتے ہیں اجلاس ابھی |
فصل بوئی ہے فسادوں کی، طلب امن کی ہے |
جو اگائی ہیں، وہی پاؤ گے اجناس ابھی |
خوش کلامی کا یہ آفاق سے اترا ہے صلہ |
کھانے لگ جائے گا ہم زاد مرا ماس ابھی |
ایک افلاس کا مارا ہے تو دوجے کے لیئے |
ڈھیر لگ جائیں اشارے پہ ہی الماس ابھی |
حق اگر پایا ہے اسنادِ فضیلت کا رشیدؔ |
باعثِ طرۂِ دستار ہے لکھ پاس ابھی |
رشِید حسرتؔ |
آج مورخہ ۰۶ مئی ۲۰۲۵ کو یہ غزل شب ۱۱ بج کر ۲۵ منٹ پر مکمل ہوئی۔ |
معلومات