کرو احسان، تھوڑی دل میں جا دو
تسلی کو، ذرا سا مسکرا دو
ہمیں تحلیل کر لو آنسوؤں میں
پھر آنکھوں سے جو چاہو تو بہا دو
کھسکتا جا رہا مٹھی سے جیون
سکوتِ وقت کی کوئی دوا دو
مجھے سانسوں میں دقت ہو چلی ہے
مرے سینے کو دھیرے سے دبا دو
تمہاری راہ کی دیوار ہوں تو
مجھے ہاتھوں سے اپنے زہر لا دو
مری تذلیل کرنے پر تلے ہو
کہیں رتبہ نہ خود اپنا گرا دو
پرانے خواب بے تعبیر نکلے
نئے سپنوں کا کوئی سلسلہ دو
مجھے ہے تجربے سے خوف لاحق
نجانے تم صلہ الفت کا کیا دو
رکھا روشن وفا کا دل میں حسرتؔ
دیا بے وجہ کا اب تو بجھا دو
رشید حسرتؔ
٢٨، نومبر ٢٠٢٥
rasheedhasrat199@gmail.com

0
1