ہم یہاں کے ہو لیئے پر کام تو کچھ اور تھا |
پا لیا سکھ بھی، مگر الزام تو کچھ اور تھا |
دیکھ تیری ضد کے آگے ہم تو جھکنے سے رہے |
کیا ہؤا ہے صبح، اے دل! شام تو کچھ اور تھا |
اس نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا قاصد تجھے |
آتے آتے کیا ہؤا، پیغام تو کچھ اور تھا |
لوٹتے ہیں گاہکوں کو سامنے والے بھی تو |
اُس نے مانگا اور، اُس پر دام تو کچھ اور تھا |
اب کے اس نے بھی بدل ڈالا ہے اندازِ کلام |
جو ہمیں دیتا رہا، دُشنام تو کچھ اور تھا |
کتنی چاہت سے پکا کر وہ کھلاتا تھا ہمیں |
ہم اُسے کرموؔ بلاتے، نام تو کچھ اور تھا |
اب حکومت نے نوازا، ماں سے پاتے تھے کبھی |
ایک آنہ بھی اگر انعام تو کچھ اور تھا |
اب بھی سر میں تیل بیوی ڈال دیتی ہے کبھی |
ماں کے ہاتھوں میں مگر آرام تو کچھ اور تھا |
جب تلک ساقی کے قبضے میں تھا صورت اور تھی |
آ گیا ہاتھوں میں اپنے جام، تو کچھ اور تھا |
آم پیلے بھی بہت اچھے تھے بچپن میں، مگر |
اور کوئی ان میں ہوتا خام تو کچھ اور تھا |
تو نے خود کو خاص کر کے اپنا کھویا ہے وقار |
جب تلک رکھا تھا فیضِ عام تو کچھ اور تھا |
ہم کتابوں میں پڑے سوکھے گلابوں میں رہے |
زرد پتوں کا ہؤا الہام تو کچھ اور تھا |
ہم نے جب جا کر خریدا ایک کپڑا تھا رشیدؔ |
اور جب باندھا اسے (احرام) تو کچھ اور تھا |
رشِید حسرتؔ |
۰۲ ستمبر ۲۰۲۴ (سوا چھ بجے شام مکمل ہوئی) |
معلومات