وہ عزم مجھکو نہایت چٹان دے کے گیا |
شکستہ حال سہی، پر مکان دے کے گیا |
کیا ہے دل سے یہ سودا تو کیسا پچھتاوا؟ |
زمین لی تو، مگر آسمان دے کے گیا |
یہ آرزو تھی کوئی دو قدم تو ساتھ چلے |
وہ مسکراتا ہؤا اک جہان دے کے گیا |
جفا شعار تھا مجھ کو وفا کا کیا ادراک |
بڑھا کے کوئی وفا کی دکان دے کے گیا |
اسے خبر تھی کہ جھلسائے گی مجھے یہ دھوپ |
سو اپنی یاد کا اک سائبان دے کے گیا |
میں جانتا ہوں کہ دونوں انا کے ہیں مارے |
منانے بیوی کو بیٹا ہی مان دے کے گیا |
وہ رخت و ساز میں رکھتا تھا اپنے ہجرت بھی |
ہزار طرح کے وہم و گمان دے کے گیا |
لیا ہے جس کے لیئے بے وفائی کا الزام |
وہی تو آج وفا کا شغانؔ دے کے گا |
رشیدؔ پوچھی گئی تھی وفا میں قربانی |
نہیں تھی کچھ بھی، فقط جان دان دے کے گیا |
رشید حسرتؔ |
شغانؔ۔ براہوی میں شغان طعنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ |
مورخہ ۰۴ مارچ ۲۰۲۵، صبح ۰۹ بج کر ۴۰ منٹ پر غزل مکمل کی گئی |
معلومات