ہے روح زخمی مگر ارتعاش باہر سے
مجھے جواز کی لیکن تلاش باہر سے
اگرچہ اس نے بناوٹ کی اوڑھنی اوڑھی
مگر وہ لگتا تھا اک زندہ لاش باہر سے
وہ ٹوٹ پھوٹ کا اندر سے ہی شکار نہ تھا
دکھائی دیتا ہمیشہ نراش باہر سے
ہم اپنے آپ میں جس درجہ کھوکھلے ٹھہرے
دکھائی دیتا سبھی کو یہ کاش باہر سے
اجاڑ حد کی یہ ویران سی حویلی ہے
ہے دل پذیر سی لیکن تراش باہر سے
بنا گئی مرے سارے وجود کو ملبہ
نظر نہ آئی کوئی بھی خراش باہر سے
نجانے کتنے ہی گھاؤ لیے ہوئے تھے رشیدؔ
بہت سے لوگ جو دیکھے ہشاش باہر سے
رشید حسرتؔ، کوئٹہ
٢٥، نومبر ٢٠٢٥
rasheedhasrat199@gmail.com

0