| زمیں کھسکنے لگی، سر سے سب فلک تو گئے |
| وداع کرنے اسے ساتھ دور تک تو گئے |
| جواب لب سے محبت میں کیا ضروری ہے؟ |
| کہ اعتراف میں کنگن ترے کھنک تو گئے |
| وہ میرے ہاتھ سے راکھی بندھا کے لوٹ گئی |
| بھلا ہؤا یہ، کسی کے شکوک و شک تو گئے |
| اگر ہیں زندہ تو سمجھو تمہاری آس میں ہیں |
| جو اتفاق سے پائی کبھی جھلک، تو گئے |
| میں چند روز میں اُس پر کھلا تو کیا ہو گا |
| بناوٹوں سے مرے عیب آج ڈھک تو گئے |
| مشقتوں کا ہمیں کچھ صلہ ملا ہی نہیں |
| اگرچہ سامنے اپنے اناج پک تو گئے |
| رشیدؔ وقت نے کس غار میں ہے لا پٹخا |
| کرم کے ابر کھلے، اب کُھلی دھنک، تو گئے |
| رشید حسرتؔ، کوئٹہ |
| ۲۴، نومبر ۲۰۲۵ |
| Rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات