کچھ علم نہیں تجھ کو، تو جاہل سے ذرا سیکھ |
لہروں کو بھرے بانہوں میں ساحل سے ذرا سیکھ |
خود اپنی پرستش میں مزہ کچھ بھی نہیں ہے |
آدابِ وفا ٹوٹے ہوئے دل سے ذرا سیکھ |
خوشبو کا سفر کرتی صبا نے یہ کہا ہے |
شاداب رکھے کیسے یہ گُل، گِل سے ذرا سیکھ |
دشواری تو دشوار ہے دشوار رہے گی |
آسانی کو آسان سی مشکل سے ذرا سیکھ |
دیواریں ہیں احساسِ تحفظ کی ضمانت |
کیا نظم کا پیغام ملا، سِل سے ذرا سیکھ |
لب بستہ رہا کرتے ہیں گل رنگ صحیفے |
خاموشی سکھاتی ہوئی محفل، سے ذرا سیکھ |
تا حدِّ نظر خیمۂِ دل اور طنابیں |
رتبے سے رشیدؔ، اپنی منازل سے ذرا سیکھ |
رشید حسرتؔ |
۱۲ مئی ۲۰۲۵ |
معلومات