| صدی سے ہم سرکتے آ رہے ہیں |
| خزاں آئینے تکتے آ رہے ہیں |
| یہاں سے ہم گئے تھے مسکراتے |
| وہاں سے اب سسکتے آ رہے ہیں |
| کہیں کھل جائے ناں چہرہ ہمارا |
| ہم اپنے عیب ڈھکتے آ رہے ہیں |
| جہاں لگنی ندا کی تھی علامت |
| وہاں شعروں میں سکتے آ رہے ہیں |
| گریزاں ہیں کہ رستے میں ہمارے |
| کئی دل جو دھڑکتے آ رہے ہیں |
| نجانے کس نگر کے وہ ہیں باسی |
| کہ خوش بو سے مہکتے آ رہے ہیں |
| نہیں مزدور کو مزدوری، بچّے |
| نگاہوں میں بلکتے آ رہے ہیں |
| نشست اپنی اسے بھائی نہ شائد |
| مری جانب کھسکتے آ رہے ہیں |
| نگاہیں منتظر تھیں جس کی حسرتؔ |
| وہ دیکھو تو مٹکتے آ رہے ہیں |
| رشید حسرتؔ، کوئٹہ |
| ۰۹، دسمبر ۲۰۲۵ |
| Rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات