جو رات تیرے لیئے قُمقُموں سموئی تھی |
وہ رات میں نے فقط آنسُوؤں سے دھوئی تھی |
رفِیق چھوڑ گئے ایک ایک کر کے مُجھے |
خطا نہِیں تھی کوئی، صِرف راست گوئی تھی |
وہِیں پہ روتے کھڑے رہ گئے مِرے ارماں |
خُود اپنے ہاتھ سے کشتی جہاں ڈبوئی تھی |
جہاں سے آج چُنِیں سِیپِیاں مسرّت کی |
وہاں پہ فصل کبھی آنسُوؤں کی بوئی تھی |
شبِ فراق تُجھے کیا خبر، کوئی وحشت |
تمام رات مِرے بازُووں میں سوئی تھی |
تُمہارے بعد تو سکتہ ہُؤا ہے یُوں طاری |
سُوی سی آنکھ میں جیسے کوئی چُبھوئی تھی |
رشِیدؔ فرق نہِیں شعر میں ہے دم کہ نہِیں |
مہک تھی یار کی زُلفوں کی، عقل کھوئی تھی |
رشِید حسرتؔ |
معلومات